جینت پرمار کے دوہے
آس بندھاتی ہے سدا سکھ کی ہوگی بھور
اپنے ارادوں کو ابھی مت کرنا کمزور
چاہت کی بھاشا نہیں شبدوں کو مت تول
خاموشی کا گیت سن چاند کی کھڑکی کھول
جاڑے کی رت ہے نئی تن پر نیلی شال
تیرے ساتھ اچھی لگی سردی اب کے سال
مانگ بھروں سندور سے سجوں سولہ سنگھار
جب تک پہنوں گی نہیں ان باہوں کا ہار
لاکھ چھپائے نہ چھپے ان راتوں کا بھید
آنکھوں کے آکاش میں پڑھے تھے چاروں وید
میں ہوں اور یہ دور تک دھوپ کا رستہ ساتھ
کاندھے پر سایہ کوئی رکھ دیتا ہے ہاتھ