Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

کشن کمار وقار

کشن کمار وقار کے اشعار

319
Favorite

باعتبار

اکھڑی باتوں سے اس کی ثابت ہے

کچھ نہ کچھ آج غیر جڑ کے اٹھا

بیٹھے جو اس گلی میں نہ مر کر بھی اٹھے ہم

اک ڈھیر گر کے ہو گئے دیوار کی طرح

حسن ان کا اگر ہے سنگیں دل

عشق اپنا بھی سخت بازو ہے

عارض پہ رہی زلف سیہ فام ہمیشہ

پامال رہا کفر کا اسلام ہمیشہ

میں کہوں آپ تمہیں آپ کہیں تم مجھ کو

تم جتاتے نہیں کس روز تحکم مجھ کو

بقید وقت پڑھی میں نے پنجگانہ نماز

شراب پینے میں کچھ احتیاط مجھ کو نہیں

بوسہ دہن کا اس کے نہ پائیں گے اپنے لب

داغی ہے میں نے نوک زبان سوال کی

امساک میں رہے گی نہ پابندیٔ منی

ہرگز نہیں ہیں مغبچے بنت العنب سے کم

ہم بندگان عشق کا مسلک نرالا ہے

کافر کی اس میں وضع نہ دیں دار کی طرح

مخاطب جو زاہد سے تو ہو گیا

تو اس کا بھی ٹھنڈا وضو ہو گیا

ایک جھوٹے کے وصف دنداں میں

سچے موتی سدا پروتا ہوں

دن لگے ہیں یہ رات کو میری

چشم آہو چراغ صحرا ہے

گر حسن گندمی ترا ان کو نہ تھا پسند

آدم نے چھوڑا کس لئے باغ بہشت کو

ٹیم ٹام آئنے کی جو ہے وہ سب منہ پر ہے

عالم ہو کے سوا گھر میں مگر کچھ بھی نہیں

زلف و ابرو نے تو اے جان تھا باندھا مارا

پر تری چشم نے کر کے مجھے بے جاں چھوڑا

جو مجھ پر ہے وہی ہے غیر پر لطف

ہوا ہے خاتمہ اس پر وفا کا

آتشیں حسن کیوں دکھاتے ہو

دل ہے عاشق کا کوہ طور نہیں

جس کو پاس اس نے بٹھایا ایک دن

اس کو دنیا سے اٹھایا ایک دن

بہت دنوں سے ہوں آمد کا اپنی چشم براہ

تمہارا لے گیا اے یار انتظار کہاں

ہے جب سے دست گیر جنوں کوئے یار میں

پھرتا ہوں ایک پاؤں سے پرکار کی طرح

گو برا ہی دیر ہو دس پانچ دیکھیں صورتیں

کعبہ میں تو ٹوٹی مورت بھی نظر آئی نہیں

اشک حسرت ہے آج طوفاں خیز

کشتیٔ چشم کی تباہی ہے

تمہارے عشق ابرو میں ہلال عید کی صورت

ہزاروں انگلیاں اٹھیں جدھر سے ہو کے ہم نکلے

شراب غیر کو دے کر جلا نہ ہر کروٹ

نہ دل کو آگ پہ تو صورت کباب پھرا

ہاتھ پستاں پہ غیر کا پہونچا

آپ بھی اب ہوئے انار فروش

چھپتا نہیں ہے دل میں کبھی راز عشق کا

یہ آگ وہ ہے جس کو نہیں تاب سنگ میں

نہ توڑو دل کہ ہے کعبہ کا ڈھانا

یہ دو گھر ہیں مگر بنیاد ہے ایک

کچھ غم فراق کا ہے نہ کچھ وصل کی خوشی

ہوں اس کے ذوق و شوق میں مسرور رات دن

یار نے خط و کبوتر کے کئے ہیں ٹکڑے

پرزے کاغذ کے کریں جمع کہ پر جمع کریں

دیار عشق میں یہ مسئلہ ہے مفتیبہ

بجز حرام کی رغبت کے کچھ حلال نہیں

دھوپ میں رکھ قفس نہ اے صیاد

سایہ پروردۂ چمن ہوں میں

کس واسطے لڑتے ہیں بہم شیخ و برہمن

کعبہ نہ کسی کا ہے نہ بت خانہ کسی کا

مجھی کو گالیاں دیتے رہے وہ

مگر لیتا رہا بوسے چٹا چٹ

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے