اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا
مرزا محمد ہادی نام، عزیزؔ تخلص، 1882ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے بزرگ شیرازسے کشمیر پہنچے۔ وہاں سے لکھنؤ پہنچ کر شاہان اودھ کی ملازمت میں داخل ہوئے۔ صاحبان علم و فضل تھے اس لیے ان کے بیشتر بزرگ لکھنؤ میں عزت و امتیاز رکھتے تھے۔
عزیزؔ صرف سات برس کے تھے کہ شفقت پدری سے محروم ہوگئے۔ مطالعے کا شغل انہوں نے اپنے طور پر جاری رکھا۔ جس سے علم میں برابر اضافہ ہوتا رہا۔ کلام غالبؔ کا خاص طور پر مطالعہ کیا۔ شعرائے فارسی میں حافظؔ، عرفیؔ اور نظیریؔ کا کلام مرغوب تھا۔ شعرکہنے لگے تو ان شعرا کی پیروی کو باعث افتخار جانا۔ غالبؔ کی اکثر غزلوں پر غزلیں کہیں۔ صفیؔ کی شاگردی اختیار کی۔ 1935ء میں انتقال ہوا۔ غزلوں کے دو دیوان ’گل کدہ‘ اور ’انجم کدہ، نیز ’قصائد عزیز‘ ان سے یادگار ہیں۔
جدید دور میں اردو غزل کو نیا رنگ و آہنگ عطا کرنے میں عزیز کا بڑا حصہ ہے۔ عزیز کے پسندیدہ شعرا کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ غزل میں فکر کا عنصر انہیں مرغوب ہے۔ چنانچہ عزیزؔ کی غزل میں فکر کا عنصر نمایاں ہے۔ لیکن کبھی کبھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی غزل فکر کی متحمل نہیں ہو پارہی ہے اور جو مفہوم وہ ادا کرنا چاہتے ہیں لفظ انہیں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ تاہم ان کے کلام کے مطالعے سے ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔
غزل کے علاوہ عزیزؔ نے قصیدے کی طرف بھی توجہ کی۔ تخیل کی بلندی، فکر کی گہرائی الفاظ کا شکوہ ان کے قصیدے کی خصوصیت ہے۔ غرض ان کے قصیدے بھی فن کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔ تشبیب کی طرف خاص توجہ کرتے ہیں اور اس میں دلکشی پیدا کرنے کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ عزیز کے شعری سرمایے میں کچھ نظمیں بھی موجود ہیں اور ایسی ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
عزیز کی ایک غزل کے دو شعر یہاں پیش کئے جاتے ہیں؎
وہ نگاہیں کیا کہوں کیوں کر رگ جاں ہوگئیں
دل میں نشتر بن کے ڈوبیں اور پنہاں ہوگئیں
اک نظر گھبرا کے کی اپنی طرف اس شوخ نے
ہستیاں جب مٹ کے اجزائے پریشاں ہوگئیں