آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا
میں خود کو دیکھتا رہا میں خود کو سوچتا رہا
معید رشیدی کی پیدائش کانکی نارہ (شمالی کلکتہ) میں 1988 کو ہوئی ۔ وہ ہمارے عہد کے تازہ فکر شاعر ہیں۔انھوں نے جواہرلعل نہرویونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ دہلی یونیورسٹی سے ایم فل کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ’جدید غزل کی شعریات‘ پرانھیں (بحیثیت استاد)پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی۔ وہ تین سال تک آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن سے کمپیئر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ انھوں نے تین سال تک قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی میں بطور رسرچ اسسٹنٹ اپنی خدمات انجام دیں۔ 2013میں انھیں ساہتیہ اکادمی (دہلی) نے نوجوان ادیب کی حیثیت سے قومی اعزاز سے نوازا۔وہ چھے کتابوں کے مصنف ہیں۔ ’تخلیق، تخئیل اور استعارہ‘ ان کی شہرت کی اصل وجہ بنی۔ مومن خاں مومن پر ان کی کتاب علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی اور یونیورسیٹیوں میں اعتبار کو پہنچی۔ریختہ فاؤنڈیشن نے ان کا شعری مجموعہ اردو(آخری کنارے پر) اور ہندی(عشق) دونوں زبانوں میں شائع کیا ہے۔وہ ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کئی مشاعروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ فی الحال وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہیں اور درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
معیدرشیدی کی شاعری تجربات، مشاہدات، جذبات اور احساسات کے تنوع میں ظلمت کو نور کا حوالہ بناتی ہے۔ ذات کی پیچیدگیوں میں اترکر کائنات کے رموز دریافت کرتی ہے۔ ظاہر و باطن کے امتزاج سے تخلیقی دنیا تشکیل کرتی ہے جس کی بنیاد یں لفظ اور اس کے متعلقات، معنی اور اس کے اسرار فراہم کرتے ہیں۔
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : n2010207644