- کتاب فہرست 181620
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1877
طب794 تحریکات284 ناول4119 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1404
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح174
- گیت87
- غزل944
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1505
- کہہ مکرنی6
- کلیات640
- ماہیہ18
- مجموعہ4538
- مرثیہ362
- مثنوی775
- مسدس53
- نعت497
- نظم1129
- دیگر65
- پہیلی17
- قصیدہ176
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
مبشر علی زیدی کے افسانچے
دوست
’’آپ ہنستے ہیں تو یہ دنیا آپ کے ساتھ ہنستی ہے۔ آپ روتے ہیں تو یہ آپ پر ہنستی ہے۔‘‘ چارلی چپلن نے کہا۔ میں نے اس کی بات سچ مان لی۔ لوگ واقعی اّس کی ہر حرکت پر ہنستے ہیں۔ میں اس کا انٹرویو کرنے پہنچا تھا۔ وہ ڈریسنگ روم میں تھا۔ تیار ہونے کے بعد
جشن
افریقا کے دو قبیلے پچاس سال پرانی جنگ کی یاد منارہے تھے۔ میں تنزانیہ میں تھا، جب مجھے خبر ملی۔ میری فرمائش پر میزبان مجھے وہاں لے گئے۔ رنگارنگ میلے میں سیکڑوں قبائلی شریک تھے۔ کہیں لوک گیتوں پر روایتی رقص جاری تھا۔ کہیں کوئی بوڑھا جوانی کے قصے سنارہا
انعام
میں جس سرکاری دفتر میں کام کرتا ہوں، وہاں خواب خریدے جاتے ہیں۔ کچھ شہری اپنے خواب کوڑیوں کے مول بیچ دیتے ہیں۔ کچھ خوابوں کے بدلے اشرفیاں دی جاتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک نوجوان نے سنایا، ’’میں نے خواب دیکھا ہے کہ وڈیروں کی زمینیں چھین کر غریب ہاریوں میں بانٹ
روشنی
سورج نکلتا ہے تو باپو کھیت میں کام کرتا ہے، ماں چکی پیستی ہے، بہن کپڑے سیتی ہے، بھائی فٹبال کھیلتا ہے، میں کھڑکی سے چھن کر آنے والی روشنی میں کتاب پڑھتا ہوں۔ ہمارے گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ ایک دن میں نے باپو سے کہا، ’’سورج ڈوبنے کے بعد تم کھیت
سستا
میں فلموں میں اکثر پیاسا رہ جاتا تھا۔ ایک رات شو ختم ہونے کے بعد سنیما سے نکل پڑا۔ ڈھونڈتا ڈھانڈتا ایک فاسٹ فوڈ چین کے ریسٹورنٹ پہنچا۔ ’’کیا مجھے انسانی خون کی دو بوتلیں مل سکتی ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’جی ہاں مسٹر ڈریکولا! کون سا برانڈ چاہیے؟‘‘ کاؤنٹر
راشن
’’میرے ٹی وی میں ایک کلو، کرکٹ میچ ڈال دو۔‘‘ میں نے پرچون فروش سے کہا۔ اس نے بوری سے کرکٹ میچ نکالے اور ٹی وی میں پلٹ دیے۔ میں پہلی تاریخ کو مہینے کا سودا لینے گیا تھا۔ ’’صاحب جی! اور؟‘‘ دکان دار نے پوچھا۔ ’’دس کلو سیاسی لفڑا، ڈیڑھ کلو ٹاک شوز، دو
انسان
وہ انسان راستہ بھول کے جنگل میں گھس گیا تھا۔ سب سے پہلے اس کی راہ میں شیر آیا۔ لیکن شیر کا پیٹ بھرا ہوا تھا۔ اس نے آںکھ اٹھاکر نہ دیکھا۔ البتہ ایک ریچھ انسان کے پیچھے پڑگیا۔ انسان تیز بھاگا تو ریچھ تعاقب نہ کرسکا۔ جنگل کی ندی میں مگرمچھ دکھائی
روتے کیوں ہو؟
’’کیا اِس ٹرین میں کوئی ٹکٹ چیکر آتا ہے؟‘‘ میں نے برلن میں سفر کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’کوئی میرا ٹکٹ کیوں چیک کرے گا؟‘‘ جرمن دوست نے حیران ہوکر کہا۔ ’’فرض کرو، تم ٹکٹ نہیں لیتے۔ پھر؟‘‘ اس نے فرض کرنے کی کوشش کی لیکن نا کام رہا۔ ’’کیا تم نے اپنے ملک
طریقہ
’’عوام کو اسلحے کے بغیر لُوٹنے کے طریقے سیکھیں‘‘ اس دفتر کے دروازے کے اوپر یہ لکھا تھا۔ میں پستول دکھاکر لوگوں کو لُوٹتے لُوٹتے تھک چکا تھا۔ دفتر کے اندر گھسا تو کاؤنٹر کے پیچھے ایک شخص بیٹھا دیکھا۔ ’’لوگوں کو لوٹنے کا ایک طریقہ سیکھنے کی فیس پانچ
برداشت
’’ہمارے معاشرے میں برداشت کم ہوتی جارہی ہے۔‘‘ میں نے صرف اتنا کہا تھا۔ ’’غدار! وطن کے خلاف بات کرتے ہو؟‘‘ ایک نوجوان نے میرا گریبان پکڑ لیا۔ ’’وطن کے خلاف؟‘‘ میں ہکابکا رہ گیا۔ ’’ایسے لوگ ہی مذہب کو بد نام کرتے ہیں۔‘‘ ایک بڑے میاں نے چپت لگائی۔ ’’مذہب
مصافحہ
کل صبح میں نے ایک رشوت خور سرکاری افسر سے مصافحہ کیا۔ اس کے بعد مجھے اپنے ہاتھ پر چکناہٹ محسوس ہوئی۔ میں نے دیکھا، میرے ہاتھ پر کالک لگ گئی تھی۔ دو پہر کو میں نے ایک ضمیر فروش نامہ نگار سے مصافحہ کیا۔ اس کے بعد مجھے اپنے ہاتھ میں جلن محسوس ہوئی۔ میں
پروفیشنل
پیٹ کی خاطر مجھے کیا کیا کرنا پڑتا ہے، پیٹ بھروں کو کیا پتا! میں روزانہ سیکڑوں افراد کے سامنے خالی پیٹ فن کا مظاہرہ کرتی ہوں۔ جھُک جھُک کے سلام کرتی ہوں، جمناسٹک دکھاتی ہوں، اچھلتی کُودتی ہوں، قلابازیاں کھاتی ہوں، ہوا میں تیرتی ہوں، پانی میں ناچتی
راشن
میں اپنی چاروں بلیوں کی خوراک لینے کے لیے خود سوپرمارکیٹ جاتی ہوں۔ آج کیٹ فوڈ کے کئی پیکٹ خریدے۔ ایک پیکٹ صرف نو سو روپے کا تھا۔ جیلی والے گوشت کے ڈھائی درجن ٹِن لیے۔ ایک ٹِن کی قیمت بس پچھتر روپے تھی۔ میں اپنی بلیوں کے لیے ہمیشہ امپورٹڈ مٹی خریدتی
تماشائی
بھڑکیلی شوخ رنگ والی شرٹ۔ بہت مختصر سا اسکرٹ۔ پیروں سے اٹھ کر اسکرٹ میں گم ہو جانے والے چست موزے۔ اونچی ایڑی کے سینڈل۔ کانوں میں چمکتی بالیاں، ہاتھوں میں کھنکتے کڑے۔ اس کے ہاتھ کسی مشین جیسی تیزی سے چل رہے تھے۔ کبھی ہونٹ رنگے جا رہے تھے، کبھی غازہ
چراغ
الہ دین کا تعلق ہمارے وطن چین سے تھا، یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ الہ دین کے بعد اس کا چراغ ماؤزے تنگ کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ سچ کہوں، ہماری ساری ترقی اسی چراغ کے جن کی مرہونِ منت ہے۔ اچھی خاصی ترقی کرنے کے بعد ہم نے وہ چراغ کچھ دنوں کے لیے ہمسایوں کو
اشرفیاں
مجھ جیسا اندھا فقیر تمھیں کیا کہانی سنائے؟ اچھا سنو! ایک بار کوئی میرا ہاتھ پکڑ کے اسمبلی کے پاس چھوڑ آیا۔ میں راستے میں بیٹھ گیا۔ معزز ارکان قریب سے گزرتے رہے، اشرفیاں پھینکتے رہے۔ انسان کا جیسا کردار ہوتا ہے، اس کے مطابق دان کرتا ہے۔ کچھ دیر
شاپنگ
ٹام نے گلوبل سوپرمارکیٹ سے ایک موٹروے خریدی۔ پیمنٹ کے بعد سیلزمین نے کہا، ’’میں موٹروے پیک کروارہا ہوں۔ اتنی دیر میں آپ ہزاروں گاڑیاں، درجنوں فیول اسٹیشن، سیکڑوں کاروبار اور لاکھوں افراد کا روزگار اٹھالیں۔‘‘ ڈک نے سوپرمارکیٹ سے کرکٹ ٹورمنٹ خریدا۔ پیمنٹ
شہری
’’تم کبھی مسکراتے کیوں نہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ’’تم ہر وقت کیوں مسکراتی رہتی ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ ’’کیوں نہ مسکراؤں؟‘‘ مونا لیزا نے کہا، ’’آرٹ کی دل دادہ ہوں، چاروں طرف آرٹ کے نمونے سجے ہیں۔ خوش بُو کی دیوانی ہوں۔ چہار سُو خوشبوئیں پھیلی ہیں۔ عشق کی
راز
کل ایک کوا میری منڈیر پر کائیں کائیں کررہا تھا۔ میں کمرے میں لاکھوں کروڑوں کے حساب مں مصروف تھا۔ کائیں کائیں سے توجہ بٹ گئی۔ میں باہر نکلا اور کہا، ’’سنا ہے کہ کوا منڈیر پر کائیں کائیں کرے تو کوئی مہمان آتا ہے۔ آج کون آئے گا؟‘‘ کوے نے جواب دیا،
عرضی
میرے بستے سے کہانیوں کی کتابیں نکل آئی تھیں۔ ماسٹر عبد الشکور نے اسمبلی میں پورے اسکول کے سامنے مرغا بنا دیا۔ سب کتابیں میری پشت پر رکھ دیں۔ پھر وہ بید رسید کر کے بھول گئے۔ سب اپنے اپنے کلاس روم میں چلے گئے۔ مجھے اجازت نہیں ملی۔ مرغا بنے بنے میرے
کمائی
کل میں اسکول پہنچا تو بچوں کی چھٹی میں کچھ دیر تھی۔ میں نے ٹھیلے سے مکئی خریدی اور پوچھا، ’’خان! ایک دن میں کتنا کمالیتے ہو؟‘‘ پندرہ سالہ لڑکے نے کہا، ’’دو سو۔‘‘ ’’بس؟‘‘ ’’شام کو سموسے بیچتا ہوں۔ ڈھائی سو کمالیتا ہوں۔‘‘ ’’اچھا!‘‘ ’’رات کو مونگ پھلی بیچتا
بریانی
میں حیران تھا کہ میری فلم کیوں نہیں چلی۔ اسٹار کاسٹ، آئٹم نمبر، وژوول افیکٹس، میڈیا پروموشن، میں نے سب کچھ کیا لیکن فلم فلاپ ہوگئی۔ میں نے ٹھاکر سے کہا، ’’بے شک فلم کی کہانی کم زور تھی لیکن باقی سب مسالے موجود تھے۔ پھر پروجیکٹ کیوں نا کام ہوگیا؟‘‘ ٹھاکر
دکھن
زیادہ پیدل چلنا پڑتا تھا تو مجھے رونا آجاتا تھا۔ موٹرسائیکل خریدی تو پیدل چلنے کی عادت ختم ہوگئی۔ موٹرسائیکل بیچنی پڑی تو پیدل چلنا دشوار ہوگیا۔ ایک دن اسپتال جانا تھا۔ اتفاق سے اس رُوٹ کی بس نہیں ملی۔ کافی پیدل چل کر اسپتال پہنچا۔ ٹانگیں اکڑ رہی تھیں،
حقیقت
’’میری ماں اسپتال میں ہے۔‘‘ میں نے بمشکل کہا۔ ڈاکو نے بے یقینی سے مجھے دیکھا۔ ’’دو دن پہلے انھیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ اِس وقت آئی سی یو میں داخل ہیں۔‘‘ اس نے پستول نیچے کرلیا۔ ’’میں یہ پیسے نہ پہنچاسکا تو ماں کا علاج نہیں ہوسکے گا۔ وہ مرجائے گی۔‘‘ میری
الہٰ دین
وہ چراغ میری الماری میں پڑا تھا۔ میں سوچتا رہا کہ وہ یہاں کیسے آیا لیکن یاد نہیں آیا۔ پھر میں نے دیکھا، اس پر عربی میں کچھ لکھا ہے۔ ’’افرک ھذاالمصباح‘‘ مجھے عربی آتی ہے۔ اس کا مطلب ہے، اس چراغ کو رگڑو۔ میں نے چراغ رگڑا تو ایک جن نمودار ہوا۔ میں
تہوار
’’یہ کیسے معلوم کریں کہ کوئی قوم قانون پسند ہے یا نہیں؟‘‘ میں نے سماجیات کے استاد پروفیسر جانسن سے پوچھا۔ ’’اس کا ٹریفک دیکھیں، ٹریفک سگنل کا احترام دیکھیں۔‘‘ پروفیسر صاحب نے کہا۔ ’’اور امن و امان کی صورتِ حال کا اندازہ کیسے لگائیں؟‘‘ ’’اقلیتوں
بریف
’’بابا! میں سیاست دان بننا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے والد سے کہا۔ وہ بھی سیاست دان ہیں۔ اسمبلی میں جاچکے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’’پہلے کسی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کچھ دن کام کرو۔‘‘ میں نے ان کے کہنے پر جاب کرلی۔ ایڈ ایجنسی میں کلائنٹ آتے تھے، ہمیں بریف کرتے
اسپیشلسٹ
’’سر میں درد ہورہا ہے۔ کہیں برین ٹیومر نہ ہوگیا ہو۔‘‘ میں نے تشویش سے کہا۔ ’’ڈاکٹر مرتضیٰ سے ملو۔‘‘ واحد نے مشورہ دیا۔ میں مصروف تھا۔ ڈاکٹر کے پاس نہ جاسکا۔ کچھ دن بعد کہا، ’’سیڑھیاں چڑھ کر سانس پھول گیا۔ دل کی تکلیف نہ ہوگئی ہو۔‘‘ ’’ڈاکٹر مرتضیٰ کو
سخی
’’ایبولا وائرس سے ہمارے بچوں کو خطرہ ہے۔ ہم نے اس کی روک تھام کے لیے پانچ لاکھ ڈالر عطیہ کیے ہیں۔‘‘ ارب پتی کلب کے رکن نے کہا، میں بہت متاثر ہوا۔ ’’ہم ایڈز پر تحقیق کے لیے سالانہ دو ملین ڈالر دیتے ہیں۔‘‘ ’’بہت خوب۔‘‘ ’’موٹاپے اور ذیابطیس سے ہونے
مٹھو
’’کیا یہ طوطا بولتا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’جی ہاں۔‘‘ جواب ملا۔ میں اس خوب صورت طوطے کو گھر لے آیا، اس کا پرانا پنجرہ پھینک دیا، اسے ایک کشادہ پنجرے میں منتقل کردیا، طوطا پورا دن کچھ نہیں بولا۔ اگلے دن میں نے پنجرے میں ایک چھوٹا سا جھولا نصب کردیا۔ طوطے
بیش قدر
میرا ایک دوست طرح طرح کے لوٹے جمع کرتا ہے۔ اس کے ہاں درجنوں لوٹے دیکھ کر سب حیران رہ جاتے ہیں۔ کوئی لوٹا سفید ہے، کوئی سیاہ، کوئی پیتل کا ہے، کوئی پلاسٹک کا، کسی پر رنگین نقش بنے ہوئے ہیں، کسی پر حسین صورت۔ ایک دن میں نے اس کے ڈرائنگ روم میں مٹی
تاریخ
سائنس داں مستقبل بناتے ہیں لیکن ہم تاریخ لکھ رہے ہیں۔ ہم پر انکشاف ہوا ہے کہ تاریخ کی بیش تر کتابیں غلط ہیں اِس لیے انھیں دوبارہ لکھا جارہا ہے۔ ایسا یوں ہوا کہ ہم نے روشنی سے زیادہ رفتار والا راکٹ بنالیا۔ کئی ہزار نوری سال کے فاصلے تک دیکھنے والی ٹیلی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1877
-