- کتاب فہرست 180548
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
مختار احمد کی بچوں کی کہانیاں
بریانی نہیں پکی ہے بھائی
رشیدہ کا شوہر شہاب کاروباری دورے پر ہانگ کانگ گیا ہوا تھا۔اس کا ایک پررونق علاقے کی مارکیٹ میں گارمنٹس کا ایک بڑا سا اسٹور تھا جس میں بچوں کے ملبوسات فروخت کے جاتے تھے۔ اسٹور میں تین سیلزمین کام کرتے تھے_ ایک لڑکا بھی تھا جو صفائی ستھرائی اور دوسرے چھوٹے
شہزادی اور لکڑہارا
شہزادی سلطانہ بادشاہ کی شادی کے بعد بڑی منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ بادشاہ اور ملکہ تو اس کی پیدائش پر خوش تھے ہی مگر جس روز وہ پیدا ہوئی تھی پورے ملک میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ ہر طرف جشن منایا جا رہا تھا۔ بادشاہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا
مانو کہاں گئی؟
محل کے شاہی باورچی کا بیٹا شیر افگن بھاگتا بھاگتا گھر میں داخل ہوا اور ہانپتے ہوئے بولا۔ ’’ابا ابا۔ باورچی خانے میں بہت ساری بلیاں بیٹھی ہیں، جلدی چلو۔ کہیں وہ سارا دودھ نہ پی جائیں‘‘۔ باورچی بیٹھا بیوی سے باتیں کر رہا تھا، بیٹے کی اطلاع پر گھبراکر
انگوٹھی اور بانسری کا راز
پرانے زمانے کی بات ہے کسی شہر میں دو دوست رہا کرتے تھے۔ ایک کا نام عدنان تھا اور دوسرے کا مانی۔ عدنان ایک سوداگر کا بیٹا تھا اور اور مانی کا باپ شہر کا کوتوال تھا۔ عدنان تجارت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا – جب کہ مانی فن سپاہ گری سیکھ
اچھا لڑکا پکّا دوست
واجد کے اسکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔وہ اپنی امی سے ضد کرنے لگا کہ یہ چھٹیاں گزارنے خالہ کے گھر حیدرآباد چلیں۔اس کی ضد سے مجبور ہو کر اس کی امی نے اس کے ابو سے بات کی اور انھیں بتایا کہ واجد خالہ کے گھر جانے کو کہہ رہا ہے۔اس پر اس کے ابّو
منی کے جوتے
ابرار گھی بنانے کی ایک کمپنی میں ملازمت کرتا تھا۔ اس کی رہائش گاہ اس کمپنی سے چار پانچ کل میٹر دور تھی اس لیے وہ سائیکل پر کمپنی آتا جاتا تھا۔ وہ ایک محنتی اور ایماندار شخص تھا اور دل لگا کر اپنا کام کرتا تھا ۔اس کے دو بچے تھے۔ ارسلان اور بتول۔ بتول
ہمیں انعام نہیں چاہیے
شاکر صاحب صبح ہی سے ہی گاڑی کی صفائی ستھرائی میں لگے ہوئے تھے اور اب دوپہر ہونے کو آ گئی تھی۔ ان کے تینوں بچے عاقب، فہد اور ہانیہ بھی ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ ان کی بیوی نسرین کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی اور کبھی کبھی کھڑکی سے باہر جھانک کر انھیں
نیک دل شہزادہ
ایک بادشاہ تھا۔ نہایت اچھا، رحم دل اور اپنی رعایا کا بہت زیادہ خیال رکھنے والا۔ اس کی ایک ملکہ بھی تھی، بےحد حسین و جمیل اور خدا ترس۔ وہ ملک کا نظام چلانے کے لیے اپنی سمجھ کے مطابق بادشاہ کو رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں مشورے بھی دیتی تھی اور بادشاہ
شہزادی کی تین شرطیں
شہزادی نگینہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔ وہ نہایت حسین و جمیل اور عقلمند تھی۔ جب وہ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ اسی دوران اس کے دو شہزادوں کے رشتے بھی آگئے۔ بادشاہ کو فیصلہ کرنا دشوار
ہنر مند لڑکی
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں حارث نامی ایک لڑکا رہتا تھا۔اس کے ماں باپ بہت غریب تھے۔اس کا باپ کھیتوں میں کام کر کے اپنے بیوی بچے کا پیٹ پالتا تھا۔وہ اتنا غریب تھا کہ اس کے پاس ہل میں جوتنے کے لیے کوئی بیل بھی نہیں تھا۔بے چارے کو
اچھا کام
آسمان پر کئی دنوں سے گہرے کالے بادلوں کا ڈیرہ تھا۔ دن میں ہلکی اور رات کو تیز بارش کا سسلسلہ کئی روز سے جاری تھا۔ مسلسل بارشوں کی وجہ سے پکے گھروں میں رہنے والوں کو تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی، مگر وہ لوگ جو کچے گھروں اور جھونپڑیوں میں رہتے تھے ان
عقل مند وزیر زادہ
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کسی ملک پر خدا دوست نامی ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ بادشاہ بہت نیک اور صلح پسند تھا۔ اس کی ملکہ بھی بہت اچھی اور غریبوں سے محبّت کرنے والی عورت تھی۔ ان کی ایک بیٹی بھی تھی جس کا نام شہزادی انعم تھا۔ شہزادی انعم اپنی خوب صورتی،
پراسرار دستانے
عظیم کے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کے اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں اس لیے انہوں نے کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ عظیم کے والد بغرض ملازمت اس چھوٹے سے شہر میں مقیم تھے۔یہ
کام چور لڑکا
نونی یوں تو بڑا اچھا بچہ تھا مگر اس میں ایک بات بہت بری تھی اور وہ بات یہ تھی کہ وہ ایک کام چور لڑکا تھا۔ اس سے اگر کسی کام کو کرنے کا کہا جاتا تو وہ صاف منع کر دیتا تھا۔ اس کی امی باہر برآمدے میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہوتیں اور اس سے کہتیں۔ ’’نونی بیٹے۔
میں جھوٹ نہیں بولوں گا
جاوید نو دس سال کا لڑکا تھا، نہایت تمیزدار اور پڑھائی لکھائی میں تیز۔ نہ کسی سے لڑتا جھگڑتا تھا اور نہ ہی اپنی کسی بات سے کسی کی دل آزاری کرتا تھا۔ اس کی اچھی عادتوں کی وجہ سے اسکول میں اس کی تمام استانیاں اور دوست اور گھر میں اس کی امی اور ابو اس سے
کرائے کی لائبریری
سہیل جب آٹھویں جماعت پاس کرکے نویں جماعت میں گیا تو اس کے امی ابّا بہت خوش ہوئے۔ سہیل کے دوسرے رشتے دار تو بہت دور دور رہتے تھے مگر دو چچا اسی شہر میں تھے اور ایک ساتھ رہتے تھے۔ بڑے چچا شادی شدہ تھے۔ چھوٹے چچا کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ سہیل کے ابّا
غلطی ہماری ہے
ثاقب صاحب آفس سے گھر آئے تو انھیں محسوس ہوا کہ ان کی بیوی کا موڈ کچھ خراب ہے۔انھیں دیکھ کر نہ تو وہ مسکرائیں اور نہ ہی اس خوشی کا اظہار کیا جو روز ان کے آفس سے آنے پر کرتی تھیں۔وہ کپڑے تبدیل کر کے آئے تو بیوی نے خاموشی سے چائے کا کپ ان کے سامنے
امی سے ڈانٹ پڑی ہے
شدید گرمی کے موسم میں جب یکا یک آسمان پر گہرے سیاہ بادل امڈ آئے تو ہر دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی تھیں اور بجلی بار بار چمک رہی تھی۔ دور سے بادلوں کی گڑگڑاہٹ بھی سنائی دے جاتی تھی لیکن ابھی بارش شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس خوش
انعامی ٹوکن
احمد اور دانش دو بھائی تھے۔ احمد کی عمر تقریباً چودہ سال تھی اور دانش بارہ سال کا تھا۔ وہ دونوں اپنے کمرے میں تھے۔ یہ کمرہ ان کا مشترکہ کمرہ تھا۔ اس میں بے ترتیبی صاف نظر آ رہی تھی۔ کتابیں اور کپڑے ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔ دانش کے جوتے فرش پر ادھر ادھر
بونے کے جوتے
مونگی ایک موچی تھا۔ اس کی دکان گاؤں میں تھی۔ وہ روزانہ صبح دکان کھولتا، دن بھر گاؤں والوں کے پھٹے پرانے جوتوں کی مرمت کرتا اور جب شام ہوتی تو دکان بند کر کے گھر چلا آتا۔ چونکہ وہ بہت غریب تھا اس لیے اس کی دکان نہایت ٹوٹی پھوٹی حالت میں تھی۔ اس کے پاس
طلسمی جھیل کا راز
کسی گاؤں میں ایک کسان اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بیٹے کا نام انور تھا۔ اس کے باپ نے اسے بچپن ہی سے ایک مدرسے میں پڑھنے کے لیے بٹھا دیا تھا۔ وہ ذہین تھا اس لیے استاد جو بھی سبق دیتے تھے، اس کو دوسرے بچوں کی بہ نسبت جلدی یاد کر لیا کرتا
راجہ نگر کی صاف گلی
عامر کے ابو ایک اسکول ٹیچر تھے۔ وہ پہلے اپنے شہر کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھاتے تھے مگر جب ان کی ترقی ہوئی اور وہ ہیڈ ماسٹر بن گئے تو ان کا تبادلہ راجہ نگر نامی ایک دیہات کے ہائی اسکول میں کر دیا گیا۔ اگر وہ راجہ نگر جانے سے انکار کر دیتے تو پھر
شہزادے کا اغوا
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کے نظم و نسق اور نیک دلی کی وجہ سے اس کی رعایا بہت چین اور سکون سے اپنی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس ملک کے لوگوں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر وقت اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے
حویلی کے چور
نوراں کی ساری زندگی مشقت میں بسر ہوئی تھی۔ وہ ایک چھوٹے سے گاوٴں میں رہتی تھی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو اسے پورے گھر کو سنبھالنا پڑتا تھا کیوں کہ اس کی ماں گاوٴں کے زمیندار کی حویلی میں ملازمہ تھی۔ وہ صبح سے شام تک حویلی میں کام میں مصروف رہتی۔ اس خدمت کے
ایماندار موچی
سردیوں کے دن تھے۔ بالا موچی درخت کے نیچے اپنی چھوٹی سی دکان میں جوتوں کی مرمت کرنے میں مصروف تھا۔ اس کی دکان بغیر چھت اور دیواروں کے ایک ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے، گاؤں کے بالکل بیچوں بیچ ایک صاف ستھرے میدان میں تھی اور اس دکان کا کل اثاثہ لکڑی کا ایک صندوق
پینسل کی چوری
فواد ایک مصور تھا۔ اس کا حلیہ بھی ایسا ہی تھا جیسا کہ اکثر مصوروں کا ہوتا ہے۔ بھاری بھرکم جسم، گورا رنگ، شانوں تک لمبے لمبے بال، جسم پر ململ کا کرتا اور پاجامہ اور منہ میں پان۔ اس نے ایک پر رونق علاقے میں اپنا ایک چھوٹا سا اسٹوڈیو کھول رکھا تھا۔ یہاں
جادو کا آئینہ
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی ملکہ ایک نیک دل عورت تھی۔ وہ غریب لوگوں سے بہت محبّت کرتی تھی اور ان کی مدد کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے لوگ اسے دعائیں دیتے تھے۔الله نےانھیں ایک نہایت خوبصورت اور ہونہار بیٹے سے
شرارتی بچے
ہنی گرائمر اسکول پہلی کلاس سے لے کر پانچویں کلاس تک تھا۔یہ اسکول اپنی پڑھائی لکھائی اور مناسب فیسوں کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔یہاں ڈسپلن کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔اس کی ایک انوکھی بات یہ بھی تھی کہ مختلف مضمون پڑھانے کے لیے الگ الگ ٹیچرز نہیں تھیں
غریب شہزادہ
شہزادہ عالم زیب ایک نہایت خوب صورت اور نیک دل شہزادہ تھا۔ بادشاہ اور ملکہ نے شروع ہی سے اس کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی تھی۔ اسی لیے جب وہ بڑا ہوا تو ذہین بھی تھا اور تلواربازی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور گھڑ سواری میں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر
خوشامد پسند بادشاہ
یوں تو بادشاہ سلامت بہت اچھے اور نیک تھے مگر ان کا وزیر ان کی ایک بات سے بہت پریشان تھا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہتا تھا۔ بادشاہ سلامت اپنی رعایا سے بہت محبّت کرتے تھے اور انہوں نے ان کی بھلائی کے کاموں کے لیے اپنے خزانوں کا منہ کھول رکھے تھے۔ ملک میں
راجولکڑ ہارا
راجو ایک لکڑ ہارا تھا۔ اس کی عمر اٹھارہ انیس سال کی تھی۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ روز جنگل سے لکڑیاں کاٹتا اور انھیں فروخت کر کے ان سے ملنے والی رقم اپنی ماں کو لا کر دے دیتا جس سے وہ گھر کا خرچ چلاتی ۔ ایک روز راجْو جنگل
جادو کا کمرہ
شہزادی لیلیٰ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے وہ اس کو بہت چاہتا تھا۔ ملکہ بھی اپنی شہزادی سے بہت محبّت کرتی تھی اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی۔ شہزادی لیلیٰ کی پرورش بڑے ناز و نعم سے ہو رہی تھی۔ وہ نہ صرف بے انتہا
نیک دل پڑوسن
جمیلہ بھی بستی کے دوسرے غریب لوگوں کی طرح ایک تین کمرے والے کوارٹر میں رہتی تھی۔ جب اس کا شوہر زندہ تھا تو اس نے یہ کوارٹر خریدا تھا۔مدت ہوئی اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا اور اب ایک بیٹی کے سوا اس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ جب اس کا شوہر زندہ تھا
خزانے کی چوری
بہت پرانے زمانے کی بات ہے، کسی ملک میں دولت آباد نامی ایک شہر تھا۔ اس شہر میں حامد نام کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کے ماں باپ بہت غریب تھے۔ اس کے باپ نے اس کو ایک نانبائی کی دکان پر چھوٹے موٹے کام کرنے کے لیے رکھوا دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات چلانے میں
گمشدہ انگوٹھی
ایک روز جب ملکہ نیلوفر کی ماں اس سے ملنے آئی تو یہ دیکھ کر اس کو بہت حیرت ہوئی کہ اس کی بیٹی پھول کر کپا ہوتی جا رہی ہے۔ اتنی موٹی بیٹی کو دیکھ کر اس نے حیرت سے کہا۔ ’’بیٹی تمہیں یہ کیا ہوتا جا رہا ہے؟‘‘ ’’امی حضور ہم ٹھیک تو ہیں۔ آپ نے ہمیں بہت دنوں
چالاک بوڑھا
سوداگر کی گمشدگی فاروق سوداگر کو گھر سے گئے ہوئے پورے چھ ماہ ہو گئے تھے۔ وہ ریشمی کپڑے کی تجارت کرتا تھا اور چھ ماہ پیشتر چالیس اونٹوں پر اعلیٰ اقسام کے ریشمی کپڑوں کے تھان لے کر موتی نگر انھیں فروخت کرنے کی غرض سے لے گیا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے
انوکھا بندر
اقرا آٹھ نو سال کی ایک بہت اچھی، خوبصورت اور تمیز دار لڑکی تھی۔ اس کی ایک بڑی بہن بھی تھیں جن کی چند سال پہلے شادی ہوگئی تھی اور اس سے بڑا ایک بھائی بھی تھا جس کا نام ظفر تھا۔ شادی کے بعد اس کی آپی اپنے شوہر کے ساتھ دبئی چلی گئی تھیں۔ اس کا
ایک شکل کے دو شہزادے
شہزادہ ارجمند اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اپنی بہن شہزادی انجمن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ چند ہفتے پہلے اس کی شادی پڑوسی ملک کے ایک شہزادے سے ہوگئی تھی۔ شادی کے بعد وہ ایک مرتبہ بھی اپنے گھر نہیں آئی تھی۔ ملکہ نے قاصدوں کے ذریعے اسے پیغام بھی
لکڑ ہارے کا بیٹا
ایک روز کا ذکر ہے شہزادی گل صنوبر محل کے باغ میں جھولاجھول رہی تھی۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والی کنیزیں بھی اس کے ساتھ ساتھ تھیں۔ ملکہ اوربادشاہ بھی وہیں تھے اور ایک تخت پربیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ شہزادی کو باغ میں جھولا جھولنا بہت اچھا لگتا
عقلمند لکڑ ہارا
پرانے زمانے کی بات، کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ بادشاہ بہت رحمدل اور سخی تھا اور اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں ہر وقت فکر مند رہتا تھا۔ مگر اس بادشاہ میں ایک خامی بھی تھی۔ وہ اپنے وزیروں اور مشیروں کی تمام باتوں پر آنکھ بند
نیک دل پڑوسی
کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا- اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی جس پر وہ گندم اور دوسری فصلیں اگاتا تھا- وہ دن بھر کھیتوں میں کام کرتا تھا اور اس کی بیوی گھر کے کاموں کے علاوہ کھیتوں میں بھی مختلف کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتی تھی- ان کے دو بچے تھے- ایک
ایک پولیس والا اور ایک چور
عارف اور طارق دو نوں بھائی تھے۔ ایک روز جب ان کے ماموں سعودی عرب سے پاکستان آئے تو ان کے ہی گھر ٹہرے۔ وہ اپنے دونوں بھانجوں کے لیے جہاں کپڑے اور جوتے وغیرہ لائے، وہیں ان کے لیے بہت سے کھلونے بھی لے کر آئے تھے۔ ان کھلونوں میں ایک پولیس ٹوائے سیٹ
وزیر شہزادہ
ایک بادشاہ کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے کا نام شعیب اور چھوٹے کانام زوہیب تھا۔اگرچہ شعیب تھا تو بڑا مگر وہ بہت سیدھا سادہ تھا اور اس میں زیادہ عقل و شعور بھی نہ تھا۔جب کہ چھوٹا بیٹا زوہیب اس سے زیادہ عقلمند اور سمجھدار تھا- بادشاہ اس بات پر کڑھا کرتا
تیسرا کمرہ
حامد صاحب کو گھومنے پھرنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنی بیوی، بیٹے شہزاد، بہو گلبدن اور دو پوتوں حسن اور محمود کے ساتھ ایک شہر میں رہتے تھے۔ ان کی کپڑا بنانے کی ایک چھوٹی سی فیکٹری تھی جس سے انھیں اتنی آمدنی ہوجاتی تھی جو ان کی اچھے طریقے سے گزر بسر کے
لکڑ ہارے کا بیٹا
ایک روز کا ذکر ہے شہزادی گل صنوبر محل کے باغ میں جھولاجھول رہی تھی۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والی کنیزیں بھی اس کے ساتھ ساتھ تھیں۔ ملکہ اور بادشاہ بھی وہیں تھے اور ایک تخت پربیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ شہزادی کو باغ میں جھولا جھولنا بہت اچھا
باجرے کی میٹھی ٹکیہ
اسلم کسٹم میں نوکری کرتا تھا۔اس کی ڈیوٹی ایئر پورٹ پر تھی۔وہ مسافروں کا سامان چیک کرتا تھا تاکہ اس بات کا پتہ کرسکے کہ وہ مقررہ مقدار سے زیادہ سامان تو اپنے ساتھ نہیں لائے اور اگر لائے ہیں تو اس پر کسٹم ڈیوٹی دی ہے یا نہیں۔یہ کام کرتے ہوئے اسے دس بارہ
بادشاہ کا انعام
بادشاہ کو نہ تو شکار کا شوق تھا اور نہ ہی گھومنے پھرنے کا۔ اسے تو بس کھیلوں کے مقابلے بہت پسند تھے۔ وہ ایک سادگی پسند حکمران تھا۔ سال کے بارہ مہینے اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگا رہتا۔ اس کے وزیر بھی بہت عقلمند اور وفادار تھے۔ اپنے بادشاہ
جادو کی گیند
مختار احمد شہزادی نازیہ نے ایک روز بادشاہ سے کہا کہ وہ کہیں سیر کرنے جانا چاہتی ہے۔ بادشاہ کو امور مملکت سے فرصت نہیں مل رہی تھی۔ وہ بہت مصروف رہتا تھا۔ اس نے شہزادی نازیہ سے کہا- “شہزادی۔ آج کل تو ہم بہت مصروف ہیں، جیسے ہی موقع ملے گا ہم آپ کو پہاڑوں،
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-