مختار صدیقی کے اشعار
بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
وسعتیں ان میں وہی لاتے ہیں ویرانوں کی
کیا کیا پکاریں سسکتی دیکھیں لفظوں کے زندانوں میں
چپ ہی کی تلقین کرے ہے غیرت مند ضمیر ہمیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں تو ہر دھوپ میں سایوں کا رہا ہوں جویا
مجھ سے لکھوائی سرابوں کی کہانی تم نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جن خیالوں کے الٹ پھیر میں الجھیں سانسیں
ان میں کچھ اور بھی سانسوں کا اضافہ کر لیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے
یہ چال ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عبرت آباد بھی دل ہوتے ہیں انسانوں کے
داد ملتی بھی نہیں خوں شدہ ارمانوں کی
سحر ازل کو جو دی گئی وہی آج تک ہے مسافری
اے طے کریں تو پتہ چلے کہاں کون کس کی طلب میں ہے
میری آنکھوں ہی میں تھے ان کہے پہلو اس کے
وہ جو اک بات سنی میری زبانی تم نے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کبھی فاصلوں کی مسافتوں پہ عبور ہو تو یہ کہہ سکوں
مرا جرم حسرت قرب ہے تو یہی کمی یہاں سب میں ہے
رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں
جو آشفتہ سری ہے مقدر اس میں قید مقام کہاں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی
کب التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ