- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
مشتاق احمد یوسفی کے طنز و مزاح
ہوئے مر کے ہم جو رسوا
اب تو معمول سا بن گیا ہے کہ کہیں تعزیت یا تجہیزوتکفین میں شریک ہونا پڑے تو مرزا کوضرورساتھ لیتا ہوں۔ ایسے موقعوں پرہرشخص اظہارِہمدردی کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ قطۂ تاریخِ وفات ہی سہی۔ مگر مجھے نہ جانے کیوں چُپ لگ جاتی ہے، جس سے بعض اوقات نہ
پڑیئے گر بیمار
تو کوئی نہ ہو تیماردار؟ جی نہیں! بھلا کوئی تیمار دار نہ ہو تو بیمار پڑنے سے فائدہ؟ اور اگر مر جائیئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو؟ توبہ کیجئے! مرنے کا یہ اکل کھرا دقیانوسی انداز مجھے کبھی پسند نہ آیا۔ ہو سکتا ہے غالب کے طرفدار یہ کہیں کہ مغرب کو محض جینے
جنون لطیفہ
بڑامبارک ہوتا ہے وہ دن جب کوئی نیا خانساماں گھرمیں آئے اوراس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلاجائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بارآتے ہیں اورتلخی کام ودہن کی آزمائش کرکے گزرجاتے ہیں۔ اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعرصرف دو ہی موقعوں پرنصیب
چارپائی اور کلچر
ایک فرانسیسی مفکر کہتا ہےکہ موسیقی میں مجھے جو بات پسند ہے وہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جو اپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پر ٹھوڑیاں رکھ کر اسے سنتی ہیں۔ یہ قول میں نے اپنی بریّت میں اس لیے نقل نہیں کیاکہ میں جو قوالی سے بیزار ہوں تو اس کی اصل وجہ وہ بزرگ ہیں
کرکٹ
مرزا عبد الودود بیگ کا دعویٰ کچھ ایسا غلط معلوم نہیں ہوتا کہ کرکٹ بڑی تیزی سے ہمارا قومی کھیل بنتا جا رہا ہے۔ قومی کھیل سے غالباً ان کی مراد ایسا کھیل ہے جسے دوسری قومیں نہیں کھیلتیں۔ ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی
حویلی
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں یادش بخیر! میں نے 1945 میں جب قبلہ کو پہلے پہل دیکھا تو ان کا حلیہ ایسا ہو گیا تھا جیسا اب میرا ہے۔ لیکن ذکر ہمارے یار طرح دار بشارت علی فاروقی کے خسر کا ہے، لہٰذا تعارف کچھ انہی کی زبان سے اچھا معلوم ہو گا۔ ہم
اور آنا گھر میں مرغیوں کا
عرض کیا، ”کچھ بھی ہو، میں گھر میں مرغیاں پالنے کا روادار نہیں۔ میرا راسخ عقیدہ ہے کہ ان کا صحیح مقام پیٹ اور پلیٹ ہے اور شاید۔“ ”اس راسخ عقیدے میں میری طرف سے پتیلی کا اور اضافہ کرلیجیے۔“ انہوں نے بات کاٹی۔ پھر عرض کیا، ”اور شاید یہی وجہ ہے کہ
صنف لاغر
سنتے چلے آئے ہیں کہ آم، گلاب اور سانپ کی طرح عورتوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور گلاب کی قسم صحیح اندازہ کاٹنے اورسونگھنے کے بعد ہوتاہے اور اگر مارگزیدہ مرجائے تو سانپ کی قسم کاپتہ چلانابھی چنداں دشوارنہیں۔ لیکن آخر الذکر خالص
کافی
میںنے سوال کیا ’’آپ کافی کیوں پیتے ہیں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’آپ کیوں نہیں پیتے؟‘‘ ’’مجھے اس میں سگار کی سی بو آتی ہے۔‘‘ ’’اگر آپ کا اشارہ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کی طرف ہے تو یہ آپ کی قوتٍ شامہ کی کوتاہی ہے۔‘‘ گو کہ ان کا اشارہ
یہاں کچھ پھول رکھے ہیں
اس تقریب میں شرکت کے دعوت نامے کے ساتھ جب مجھے مطلع کیا گیا کہ میرے تقریباتی فرائض خالصتاً رسمی اور حاشیائی ہوں تو مجھے ایک گونہ اطمینان ہوا۔ ایک گونہ میں رواروی میں لکھ گیا، ورنہ سچ پوچھئے تو دو گونہ اطمینان ہوا۔ اس لئے کہ مجھےاطمینان دلایا گیاکہ
دست زلیخا
بابائے انگریزی ڈاکٹر سمویل جانسن کا یہ قول دل کی سیاہی سے لکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص روپے کے لالچ کے علاوہ کسی اور جزبے کے تحت کتاب لکھتا ہے، اس سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں۔ ہمیں بھی اس کلیّے سے حرف بہ حرب اتّفاق ہے، بشرطیکہ کتاب سے مراد وہی
بائی فوکل کلب
چار مہینے ہونے آئے تھے۔ شہر کا کوئی لائق ڈاکٹر بچا ہوگا جس نے ہماری مالی تکالیف میں حسب لیاقت اضافہ نہ کیا ہو۔ لیکن بائیں کہنی کا درد کسی طرح کم ہونے کا نا م نہ لیتا تھا۔ علاج نے جب شدت پکڑی اورمرض نے پیچیدہ ہو کر مفلسی کی صورت اختیارکرلی تو لکھنؤ
چند تصویر بتاں
سِیکھے ہیں مۂ رُخوں کے لئے۔۔۔ رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی نے اپنی شاعری کے تین رنگ بتائے ہیں۔ فاسقانا، عاشقانہ اور عارفانہ۔ مولانا کی طرح چکی کی مشقت تو بڑی بات ہے، مرزا عبدالودود بیگ نے تو مشق سخن سے بھی ذہن کو گراں بار نہیں کیا۔ تاہم وہ
بارے آلو کا کچھ بیاں ہو جائے
دوسروں کو کیا نام رکھیں، ہم خود بیسیوں چیزوں سے چڑ تے ہیں۔ کرم کلا، پنیر، کمبل، کافی اور کافکا، عورت کا گانا، مرد کا ناچ، گیندے کا پھول، اتوار کا ملاقاتی، مرغی کا گوشت، پاندان، غرارہ، خوبصورت عورت کا شوہر۔۔۔ زیادہ حد ادب کہ مکمل فہرست ہمارے فرد گناہ
ہل اسٹیشن
ان دنوں مرزا کے اعصاب پر ہل اسٹیشن بری طرح سوار تھا۔ لیکن ہمارا حال ان سے بھی زیادہ خستہ تھا۔ اس لئے کہ ہم پر مرزا اپنے متاثرہ اعصاب اور اہل اسٹیشن سمیت سوار تھے۔ جان ضیق میں تھی۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اسی کا ذکر، اسی کا ورد۔ ہوا یہ کہ وہ سرکاری
موذی
مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابل رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔ اب سگرٹ ہی کو لیجیے۔ ہمیں کسی کے سگرٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگرٹ
علم دریاؤ
نقشہ ہمارے طاق نسیاں کا ہمیں نام، مردوں کے چہرے، راستے، کاروں کے میک، شعر کے دونوں مصرعے، یکم جنوری کا سالانہ عہد، بیگم کی سالگرہ اور سینڈل کا سائز، نمازِ عید کی تکبیریں، سال گزشتہ کی گرمی سردی، عیش میں نامِ خدا اور طیش میں خوفِ ناخدا، کل کے اخبار
صبغے اینڈ سنز (سوداگران و ناشران کتب)
یہ اس پر امید زمانے کا ذکر ہے جب انہیں کتابوں کی دکان کھولے اور ڈیل کار نیگی پڑھے دوتین مہینے ہوئے ہوں گے اور جب ان کے ہونٹوں پر ہر وقت وہ دھلی منجھی مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی، جو آج کل صرف ٹوتھ پیسٹ کے اشتہاروں میں نظر آتی ہے۔ اس زمانے میں ان کی باتوں
پروفیسر
آج پھر ان کے اعزاز میں حضرت رنجور اکبرآبادی، ایڈیٹر، پرنٹر، پبلشر و پروف ریڈر، سہ ماہی ’’نیا افق‘‘ نے ایک عصرانہ دیا تھا۔ جس دن سے پروفیسر قاضی عبد القدوس ایم۔اے، بی۔ٹی گولڈ میڈلسٹ (مرزا سے روایت ہے کہ یہ طلائی تمغہ انہیں مڈل میں بلا ناغہ حاضری پر
سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا
تب دیکھ بہاریں جاڑے کی کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہ ِمری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروس البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔ کبھی کبھار شہر خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجہ حرارت یعنی ۴ء۹۸ سے دو تین ڈگری نیچے پھسل
ناٹک
بے در و دیوار ناٹک گھر بنایا چاہیے صحیح نام اور پتہ بتانےسے ہم قاصر ہیں، اس لیے کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ سردست اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ اس تھیٹر کو اداکاروں کی ایک کوآپریٹیو سوسائٹی نقصان باہمی کی بنیاد پر چلا رہی تھی۔ پہلی تاریخ
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
روٹی توبہر طور کما کھائے مچھندر از بسکہ ہماری ہر تباہی اور خانہ بربادی ہمارے مخدوم مرزا عبد الودود بیگ کی ذاتی نگرانی میں ہوئی ہے۔ ہم نے جاکر انہیں خوش خبری سنائی کہ ہم بینکنگ کے پیشے میں حادثاتی طور پر داخل ہوگئے ہیں۔ بولے ، ’’دست بخیر! بینک کو
موصوف
شیشے کی آنکھ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی زندگی میں ہی قصہ کہانی بن جاتے ہیں۔ انواع و اقسام کی خوبیاں اور خرابیاں اس سے منسوب تھیں۔ کوئی کہتا ہم نے مسٹر اینڈرسن کو کبھی مسکراتے نہیں دیکھا۔ منہ لال، ہونٹ کنجوس کے بٹوے کی مانند ہمیشہ بند۔ پر دل کا
سیزر، ماتا ہری اور مرزا
’’ہائے اللہ! یہ ہاتھی کا ہاتھی کتا کا ہے کو لے آئے؟‘‘ ’’چوکیداری کے لیے۔‘‘ ’’کس کی؟‘‘ ’’گھر کی۔‘‘ ’’اس گھر کی؟‘‘ ’’ہاں! بہت ہی ہوشیار کتا ہے۔ گھر میں کچھ نہ ہو، تب بھی چوکیداری کر سکتا ہے۔‘‘ اس ازدواجی مکالمے سے بعد میں یہ فائدہ
یادش بخیریا
یادش بخیر! مجھے وہ شام کبھی نہ بھولے گی جب آخرکار آغا تلمیذ الرحمن چاکسوی سےتعارف ہوا۔ سنتے چلے آئے تھے کہ آغا اپنے بچپن کے ساتھیوں کے علاوہ، جو اب ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے، کسی سے نہیں ملتے اور جس سہمے سہمے انداز سے انہوں نے مجھ سے مصافحہ
پروٹوکول
(PROTOCOL ، تشریفات) بہت کام رفو کا نکلا چپراسی نے آکر کہا، ’’صاحب سلام بولتا ہے۔ حرامی کی عینک کھو گئی ہے۔ آپ کو انگلش گالیوں کا ترجمہ کرنے کو بلا رہا ہے۔‘‘ اینڈرسن کے حضور پیش ہونے سے پہلے ہم نے ایک غیر متعلق فائل ہاتھ میں لے لی جسے CASUAL انداز
موسموں کا شہر
انگریزوں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ طبعاً کم گو واقع ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ فقط کھانے اور دانت اکھڑوانے کے لیے منھ کھولتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر انگلستان کا موسم اتنا واہیات نہ ہوتا تو انگریز بولنا بھی نہ سیکھتے اور انگریزی زبان
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا، یا کوئی قیدی چھوٹ گیا؟
سدا سہاگن راگنی رات کے دس بجا چاہتے تھے۔ بینک میں دس بارہ شب زندہ دار رہ گئے ہوں گے۔ بسیں چلنی بند ہوگئی تھیں اور اندر باہر سناٹا تھا۔ بھوک بھی تھوڑی دیر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مری نہیں تو ایسی گہری نیند ضرور سوگئی تھی جو سسکیاں لے لے کر رونے کے بعد بچوں
جانا ہمارا کاک ٹیل پارٹی میں
ڈی۔ جے اور انگرکھا ’’تمہارے پاس D.J ہے؟‘‘ مسٹر اینڈرسن نے پوچھا۔ ’’یہ کیا ہوتی ہے؟‘‘ ’’ڈنرجیکٹ۔ بلیک ٹائی۔‘‘ ’’وہی جس کا کالر سیاہ ساٹن کا ہوتا ہے اور پتلون پر بینڈ بجانے والو ں کی سی ریشمی پٹی لگی ہوتی ہے؟‘‘ ’’سلواتو لو۔ بینک سے ڈسمس ہونے کے
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-