- کتاب فہرست 180875
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4464
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1124
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
مستنصر حسین تارڑ کے افسانے
پریم
خط کے فارم میں لکھی گئی یہ کہانی ایک المیہ کہانی ہے۔ پریم ایک اعلی تعلیم یافتہ، امیر گھرانے کی سکھ لڑکی ہے جو ڈلہوزی سے لاہور اپنے قلمی دوست مستنصر کو خطوط لکھتی ہے۔ ان خطوط میں معاشرتی مسائل، سماجی جبر، پریم کی نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔ اس کے والدین سکھ برادری سے باہر شادی نہیں کر سکتے اسی لئے وہ اپنے قلمی دوست مستنصر کے لئے نرم گوشہ رکھنے کے باوجود خطوط میں اپنے ہم مذہب لڑکے سے محبت ظاہر کرتی ہے۔ اس کی موت اتفاقی طور پر اسپین میں ہوتی ہے جو مستنصر کا پسندیدہ ملک ہے۔
سیاہ آنکھ میں تصویر
لارنزد کی لاش کئی روز تک مقدس پہاڑی کی چوٹی پر گڑی صلیب سے جھولتی رہی۔ انہوں نے اسے صلیب پر میخوں سے گاڑنے کی بجائے ایک رسہ لٹکا کر پھانسی دی تھی۔ میخیں مہنگی ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ گاڑی جائیں تو آسانی سے اکھڑتی نہیں۔ ضائع ہو جاتی ہیں۔ رسہ سستا ہوتا
گیس چیمبر
کرفیو کے دوران پیدا ہونے والے بچے کی موت و زیست کی کشمکش کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک نوزائدہ جس کو زندگی کے لئے صرف ہوا، دودھ اور نیند کی ضرورت ہے، وہ کرفیو کی وجہ سے ان تینوں چیزوں سے محروم ہے۔ آنسو گیس کی وجہ سے وہ آنکھیں نہیں کھول پا رہا ہے، کرفیو کی وجہ سے دودھ والا نہیں آ رہا ہے اور وہ ڈبے کے دودھ پر گذارہ کر رہا ہے، دھماکوں کے شور کی وجہ سے وہ سو نہیں پا رہا ہے اور آلودگی کی وجہ سے اس کو صاف ستھری ہوا میسر نہیں، گویا یہ دنیا اس کے لئے ایک گیس چیمبر بن گئی ہے۔
آدھی رات کا سورج
جدید معاشرہ میں اولاد کی والدین کے تئیں بے حسی اور اپنے تاریخ و ثقافت سے بے توجہی کو اس کہانی میں موضوع بنایا گیا ہے۔ فرانسسیسی رینے کلاڈ ایک ماہر تعلیم ہے جسے ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی اکلوتی بیٹی نے اولڈ پیپل ہوم میں ڈال دیا تھا۔ بقول رینے وہ اس مشترکہ تابوت میں بیس برس تک رہا اور پھر وہ دنیا کی سیاحت کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ وہ لاہور آتا ہے اور یہاں کی تاریخی عمارتوں میں دلچسپی لیتا ہے جبکہ عام شہری کو اس سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ رینے کلاڈ دوران سیاحت نیپال میں مر جاتا ہے اور اس کی وصیت کے مطابق اسے وہیں دفن کر دیا جاتا ہے اور اخبار میں اشتہارات کے کالم کے پاس ایک مختصر سی خبر اس کے مرنے کی چھپ جاتی ہے۔
بادشاہ
تمثیلی پیرایہ بیان میں حاکم و محکوم کی کشمکش بیان کی گئی ہے۔ زمان ایک غریب پاکستانی ہے جو اپنی معاشی حالت درست کرنے کی خاطر ولایت جاتا ہے لیکن پھر پلٹ کر وطن کی طرف نہیں دیکھتا۔ وہ سیاحتی دورہ پر ہسپانیہ جاتا ہے جہاں ساحل سمندر پر ایک مخبوط الحواس بوڑھا خیمہ زن نظر آتا ہے جو خود کو اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ کہتا ہے۔ مچھلیوں کی بدبو سے وہ مکھیوں کو مارتا ہے اور کہتا ہے کہ اس زمین پر مکھیوں سے پاک نظام قائم کرنا ہی اس کا مشن ہے۔ ایک دن وہ بوڑھا اپنے خیمہ میں مردہ پایا جاتا ہے اور اس کی پالتو بلیاں اس کا گوشت کھا چکی ہوتی ہیں۔ خوشبو، بدبو اور وہیل کے با معنی استعارے اس کہانی کی کئی جہتیں روشن کرتے ہیں۔
ذات کا قتل
انتونیو ہسپانیہ کا نوجوان بل فائٹر ہے جو اپنی ذہانت اور اختراع سے بل فائٹنگ میں کامیاب ہوتا ہے لیکن ریتائرڈ بل فائٹر اور اسپانا اخبار کا کالم نویس پادرواپنے کالم میں صرف اس لئے اس کی تنقید کرتا ہے کہ انتونیو نے بل فائٹنگ میں روایتی اصولوں کی پاسداری نہ کرکے اپنی ذات کا اظہار کیا اور نئے داؤ پیچ سے بل کو شکست دی تھی۔ کالم کا نتیجہ یہ ہوا کہ انتونیو سے تمام معاہدے واپس لے لئے گئے۔ سالانہ جشن کے موقع پر جب اس کو اتفاقاً بل فائٹنگ کا دعوت نامہ ملتا ہے تو وہ روایتی انداز میں بل کو شکست دیتا ہے جس سے پادرو بھی خوش ہو جاتا ہے لیکن مقابلہ کے فوراً بعد انتونیو بل کو اپنے اوپر حملہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس کی موت ہو جاتی ہے۔
بابا بگلوس
حزب اقتدار کی منافقانہ پالیسیوں اور سماج کی بے حسی کو اس کہانی میں موضو ع بنایا گیا ہے۔ بابا بگلوس بندی خانہ میں ایک ایسا بوڑھا قیدی ہے جو نہ جانے کب سے اور کس جرم میں قید ہے۔ اس کو رہا اس لئے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی فائل غائب ہے۔ قیدخانہ کے عملہ کی جانب سی اس پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ البتہ وہ کبھی کبھی خود باہر کی دنیا دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے، لیکن باہر رہنا پسند نہیں کرتا۔ ایک منصوبہ کے تحت اس کو فرار ہونے کے لئے اکسایا بھی گیا لیکن وہ گھوم پھر کر قیدخانہ واپس آ گیا۔ شہر دیکھنے کی خواہش کے تحت ایک دن جب وہ باہر جاتا ہے تو وہاں ایک میدان میں پھانسی کامنظر دیکھتا ہے۔ عوام ایک تماشے کی طرح اس سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ بابا بگلوس سپاہیوں سے کہتا ہے کہ وہ اب قیدخانے نہیں جائے گا کیونکہ اندر باہر کا موسم ایک جیسا ہو چکا ہے۔
آکٹوپس
اب اسے اپنا ہر قدم اکھاڑنا پڑ رہا تھا جیسے وہ کیچڑ میں بھاگ رہا ہو۔ سپورٹس شوز میں پیک شدہ پاؤں وزنی ہو رہے تھے۔ بدن آگے نکلتا مگر پاؤں گھسٹتے پیچھے رہ جاتے، دندان سازکے شوکیس میں رکھی بتیسی بھنچی ہوئی، دماغ کے خلیوں کو ایس۔ او۔ ایس بھیجا ہوا۔۔۔ صرف
ڈائری ۸۳ء
تقسیم پاکستان کے بعد معاشی ناہمواری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کی عکاسی کی گئی ہے۔ ایک فقیر جو بنگالی زبان میں صدا لگاتا ہے وہ صرف اس لئے بھوکا اور محروم رہ جاتا ہے کہ بنگالی زبان سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ایک دن راوی کے دوست خواجہ صاحب اس کی زبان سمجھ کر اسے پاس بلاتے ہیں، دیر تک گفتگو کرتے ہیں اور پھر اسے اٹھنی دیتے ہیں۔ گلو گیر آواز میں کہتے ہیں کہ یہ متحدہ پاکستان کی آخری نشانی ہے، اس کے بعد بنگالیوں کی برائی کرتے ہیں۔ اس دن کے بعد جب بھی وہ فقیر آتا ہے اور صدا لگاتا ہے تو راوی کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس فقیر کے پیچھے ایک اور فقیر ہے جو صدا لگا رہا ہے۔
درخت
درخت کو علامت بنا کر لکھی گئی اس کہانی میں مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا میں جو نفع بخش چیزیں ہیں ان کو تباہ و برباد کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوتی ہیں۔ مذکورہ بالا کہانی میں سفیدے کے درخت کو ایک لکڑہارا کاٹنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اخیر میں وہ تھک ہار کر کہیں چلا جاتا ہے اور درخت پھر نئے سرے سے پروان چڑھنے لگتا ہے۔ تخریب کار ہمیشہ تعمیر کا نام لے کر تخریب کاری کرتے ہیں۔ جب عام مسافر لکڑہارے کو درخت کاٹنے سے روکتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ ہم اس درخت کو کاٹ کر نیا درخت لگائیں گے۔ مسافر جواب دیتے ہیں کہ لکڑہارے تو صرف درخت کاٹتے ہیں، لگاتے نہیں۔
غلام دین
کبھی کبھی انسان کا عرصہ حیات اس قدر تنگ ہو جاتا ہے کہ وہ محض زندہ رہنے کو ہی کامیابی سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کہانی میں مصنف نے الگزنڈر سولز نتسن کے ناول آئیون ڈینسوچ کی زندگی میں ایک دن کے کردار آئیون کے مماثل ایک کردار تخلیق کیا ہے۔ آئیون کی قیدخانہ کی زندگی اور غلام دین کی زندگی میں بیک وقت بے شمار مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ زندگی کے انتشار، محرومیوں، مجبوریوں اور خوشیوں کے معاملہ میں تقریباً دونوں کردار یکساں ہیں۔ آئیون جس دن کھانے میں دو پیالے پاتا ہے، تمباکو خرید لیتا ہے، بیمار نہیں ہوتا اور معمولی پیسے کما لیتا ہے اس دن وہ مطئن ہو کر سوتا ہے، اسی طرح اس کہانی کا کردار بھی جس دن کھانے کے بعد چائے پا جاتا ہے، گھر جانے کے لئے نو کےےے بجائے آٹھ بجے والی بس مل جاتی ہے اور بیوی سے جھگڑا نہیں ہوتا اس دن کو وہ مکمل دن سمجھتا ہے اور مطمئن ہو کر سو جاتا ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-