پیام فتحپوری کے اشعار
سکون دے نہ سکیں راحتیں زمانے کی
جو نیند آئی ترے غم کی چھاؤں میں آئی
عجیب شے ہے تصور کی کار فرمائی
ہزار محفل رنگیں شریک تنہائی
نفس نفس پہ یہاں رحمتوں کی بارش ہے
ہے بد نصیب جسے زندگی نہ راس آئی
ملامتوں سے جنوں میں نہ کچھ کمی آئی
جراحتوں سے بڑھی زخم دل کی رعنائی
خوشی وصال کی اب ہے نہ رنج تنہائی
یہ کس مقام پہ مجھ کو حیات لے آئی
تاریخ کائنات عبادت جنوں سے ہے
عنوان عقل و ہوش ہے دیوانگی کی بات
پھیلا فضا میں نغمۂ زنجیر مرحبا
زنداں میں گھٹ کے رہ نہ سکی زندگی کی بات