- کتاب فہرست 186095
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال2012
طرز زندگی22 طب929 تحریکات297 ناول4852 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار68
- دیوان1465
- دوہا50
- رزمیہ106
- شرح201
- گیت62
- غزل1190
- ہائیکو12
- حمد46
- مزاحیہ36
- انتخاب1602
- کہہ مکرنی6
- کلیات691
- ماہیہ19
- مجموعہ5056
- مرثیہ384
- مثنوی845
- مسدس58
- نعت566
- نظم1252
- دیگر76
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی17
- قطعہ65
- رباعی300
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام34
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت26
رفاقت حیات کے افسانے
آڑھتی اور اس کابیٹا
گھنگھروئوں کی آواز کب تھمی۔ ناچتے پائوں کب رکے اور تھرکتا جسم کب ساکت ہوا۔ وہ نہیں جانتا اس کے لیے ہر شے ابھی تک حرکت میں تھی۔ وہ خود کہیں ٹھہرا ہوا تھا مگر گھوم رہا تھا۔ دائرے میں ناچتے جسم کے ساتھ یہاں، وہاں۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں مگر وہ
خواہ مخواہ کی زندگی
اس کے بلاوے پر میں اس دوزخ میں کیوں آ گیا۔ گیلی لکڑیوں کے چبھنے والے دھویں سے بھرا یہ چھوٹا سا ہوٹل دوزخ ہی تو تھا۔ کتنی گھٹن تھی اور گرمی بھی۔ نہ کھڑکی نہ روشن دان، بس ایک دروازہ۔ اندر گھسنے کے لیئے آنکھیں جل رہی تھیں۔ لگتا تھا، پلکیں جھڑ جائیں گی۔
گلاں کی سرگوشیاں
پچھلی چوری کو اکیالیس دن گزر چکے تھے۔ اس کی ملامت ابھی تک جیون کے دل میں اٹکی ہوئی تھی۔ کبھی کبھار وہ اسے محسوس کر لیتا تھا اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتا تھا۔ پچھلی مرتبہ وہ چھٹی کی رات گھر میں لیٹا ہوا تھا۔ اس کی نئی نویلی، کالی کلوٹی اور کم سن بیوی،
ایک اور مکان
نیند کی چڑیا کا چپ چاپ اڑ جانا اس کے لیے کم اذیت ناک نہ تھا۔ لیکن یہ روز نہیں ہو تا تھا۔ کیونکہ وہ چڑیا کو تو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پکڑ سکتا تھا۔ مثلاً بس میں سفر کرتے ہو ئے یا گھر میں اخبار پڑھتے ہو ئے۔ بس ذرا آنکھ میچنے کی دیر تھی۔ لیکن اب جسم کے
چریا ملک
ملک محمد حاکم بیساکھی پر قبضے کی دکانوں کا پھیرا لگا کر شبیر کے ہوٹل پہنچا۔ اس کی مختصر گٹھڑی میں پتی کی پڑیاں نظر آ رہے تھے۔ اس نے بینچ پر گٹھڑی پھینکی، دائیں پیر کے فوجی بوٹ کا تسمہ کھولا اور نڈھال ہو کر گر گیا۔ ٹھنڈے پانی کا گلاس چڑھا کر طبیعت بحال
کفن بکس والا
نہ تو وہ کبھی آس پاس کی بستیوں میں دیکھا گیا تھا اور نہ ہی اسے یہاں کوئی جانتا تھا۔ اس پر ایک نظر ڈالتے ہی قدیم دور کی گم شدہ انسانی نسلوں کے ہیولے ذہن میں تھرتھرانے لگتے تھے۔ پھر بھی یہ اندازہ لگا نا مشکل تھا کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے۔ لوگوں
انڈونیشی سگریٹ
غلام رسول دن بھر کی آمدنی، گندے اور کسیلے نوٹ گن رہا تھا۔ اس کی بس جب آخری اسٹاپ پر کھڑی ہو گئی اور بچے کھچے لوگ اس میں سے اتر گئے۔ ڈرائیور نے چابی نکالی۔ نشست سے اٹھا اور کھڑکی ے باہر کود گیا۔ غلام رسول نے اسے ایک نظر دیکھا تو، مگر اس کا دھیان نوٹوں
مسکراہٹ
اس نے میری گردن کو بازوؤں میں جکڑ لیا اور میرے گالوں کو چومنے لگا۔ پھر اس کے دانت گالوں میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ اس کی غلیظ رال چہرے پر پھیل گئی۔ میں نے اس کے بال کھینچے، پرے دھکیلنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے نتھنوں سے گرم سانسیں میری جلد کے مساموں میں
بچھڑی گونج
معمول کے کام نمٹاکر وہ سستانے بیٹھی تو سوچ رہی تھی ’’کھانا پودینے کی چٹنی سے کھالوں گی، بیٹے کے لیے انڈا بنا نا پڑےگا۔ پرسوں والا گوشت رکھا ہے۔ آلو ساتھ ملا کر شام کو سالن بنالوں گی۔‘‘ اس نے فریزر کھول کر گوشت کو ٹٹولا کہ پورا پڑ جائےگا یا نہیں۔ پھر
ہرے دروازے والا مکان
عقیل بیگ نے چلتی ہوئی بس سے اپنے اسٹاپ پر چھلانگ لگائی اور شہر کی سب سے بڑی سڑک کو عبور کر کے مانڈلی والے سے اپنے برانڈ کا پیکٹ خریدا اور اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر سلگاتے ہوئے اس نے اخباروں کے اسٹال پر روزناموں کی سرخیوں پر نگاہ دوڑائی۔ اس کے بعد
بیل دوج کی ٹھیکری
کتنے دنوں سے وہ روز خوابوں میں آ جاتی ہے۔ رات کو نیند میں دن کو آرام کر تے ہوئے یا دوپہر کو قیلولے کے وقت۔ حتیٰ کہ جاگتے ہو ئے بھی ایسا لگتا ہے کہ میری آنکھیں اسے دیکھ رہی ہیں۔ میرا جسم اس کی موجودگی کو محسوس کر رہا ہے۔ میں اس کی سرگوشیاں بھی سنتی
join rekhta family!
-
ادب اطفال2012
-