- کتاب فہرست 187236
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1947
طب894 تحریکات294 ناول4552 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1444
- دوہا64
- رزمیہ108
- شرح192
- گیت83
- غزل1138
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1559
- کہہ مکرنی6
- کلیات685
- ماہیہ19
- مجموعہ4954
- مرثیہ377
- مثنوی824
- مسدس58
- نعت542
- نظم1221
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ186
- قوالی19
- قطعہ61
- رباعی294
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
رفاقت حیات کے افسانے
آڑھتی اور اس کابیٹا
گھنگھروئوں کی آواز کب تھمی۔ ناچتے پائوں کب رکے اور تھرکتا جسم کب ساکت ہوا۔ وہ نہیں جانتا اس کے لیے ہر شے ابھی تک حرکت میں تھی۔ وہ خود کہیں ٹھہرا ہوا تھا مگر گھوم رہا تھا۔ دائرے میں ناچتے جسم کے ساتھ یہاں، وہاں۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں مگر وہ
خواہ مخواہ کی زندگی
اس کے بلاوے پر میں اس دوزخ میں کیوں آ گیا۔ گیلی لکڑیوں کے چبھنے والے دھویں سے بھرا یہ چھوٹا سا ہوٹل دوزخ ہی تو تھا۔ کتنی گھٹن تھی اور گرمی بھی۔ نہ کھڑکی نہ روشن دان، بس ایک دروازہ۔ اندر گھسنے کے لیئے آنکھیں جل رہی تھیں۔ لگتا تھا، پلکیں جھڑ جائیں گی۔
گلاں کی سرگوشیاں
پچھلی چوری کو اکیالیس دن گزر چکے تھے۔ اس کی ملامت ابھی تک جیون کے دل میں اٹکی ہوئی تھی۔ کبھی کبھار وہ اسے محسوس کر لیتا تھا اور ٹھنڈی آہ بھر کے رہ جاتا تھا۔ پچھلی مرتبہ وہ چھٹی کی رات گھر میں لیٹا ہوا تھا۔ اس کی نئی نویلی، کالی کلوٹی اور کم سن بیوی،
ایک اور مکان
نیند کی چڑیا کا چپ چاپ اڑ جانا اس کے لیے کم اذیت ناک نہ تھا۔ لیکن یہ روز نہیں ہو تا تھا۔ کیونکہ وہ چڑیا کو تو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پکڑ سکتا تھا۔ مثلاً بس میں سفر کرتے ہو ئے یا گھر میں اخبار پڑھتے ہو ئے۔ بس ذرا آنکھ میچنے کی دیر تھی۔ لیکن اب جسم کے
چریا ملک
ملک محمد حاکم بیساکھی پر قبضے کی دکانوں کا پھیرا لگا کر شبیر کے ہوٹل پہنچا۔ اس کی مختصر گٹھڑی میں پتی کی پڑیاں نظر آ رہے تھے۔ اس نے بینچ پر گٹھڑی پھینکی، دائیں پیر کے فوجی بوٹ کا تسمہ کھولا اور نڈھال ہو کر گر گیا۔ ٹھنڈے پانی کا گلاس چڑھا کر طبیعت بحال
کفن بکس والا
نہ تو وہ کبھی آس پاس کی بستیوں میں دیکھا گیا تھا اور نہ ہی اسے یہاں کوئی جانتا تھا۔ اس پر ایک نظر ڈالتے ہی قدیم دور کی گم شدہ انسانی نسلوں کے ہیولے ذہن میں تھرتھرانے لگتے تھے۔ پھر بھی یہ اندازہ لگا نا مشکل تھا کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے۔ لوگوں
انڈونیشی سگریٹ
غلام رسول دن بھر کی آمدنی، گندے اور کسیلے نوٹ گن رہا تھا۔ اس کی بس جب آخری اسٹاپ پر کھڑی ہو گئی اور بچے کھچے لوگ اس میں سے اتر گئے۔ ڈرائیور نے چابی نکالی۔ نشست سے اٹھا اور کھڑکی ے باہر کود گیا۔ غلام رسول نے اسے ایک نظر دیکھا تو، مگر اس کا دھیان نوٹوں
مسکراہٹ
اس نے میری گردن کو بازوؤں میں جکڑ لیا اور میرے گالوں کو چومنے لگا۔ پھر اس کے دانت گالوں میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ اس کی غلیظ رال چہرے پر پھیل گئی۔ میں نے اس کے بال کھینچے، پرے دھکیلنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے نتھنوں سے گرم سانسیں میری جلد کے مساموں میں
بچھڑی گونج
معمول کے کام نمٹاکر وہ سستانے بیٹھی تو سوچ رہی تھی ’’کھانا پودینے کی چٹنی سے کھالوں گی، بیٹے کے لیے انڈا بنا نا پڑےگا۔ پرسوں والا گوشت رکھا ہے۔ آلو ساتھ ملا کر شام کو سالن بنالوں گی۔‘‘ اس نے فریزر کھول کر گوشت کو ٹٹولا کہ پورا پڑ جائےگا یا نہیں۔ پھر
ہرے دروازے والا مکان
عقیل بیگ نے چلتی ہوئی بس سے اپنے اسٹاپ پر چھلانگ لگائی اور شہر کی سب سے بڑی سڑک کو عبور کر کے مانڈلی والے سے اپنے برانڈ کا پیکٹ خریدا اور اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر سلگاتے ہوئے اس نے اخباروں کے اسٹال پر روزناموں کی سرخیوں پر نگاہ دوڑائی۔ اس کے بعد
پرچھائیں
وہ بےخبر تھا اور اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا۔ دوپہر کے بعد اب سہ پہر بھی گزرتی جا رہی تھی۔ گرچہ اتوار نہیں تھا۔ پھر بھی اس کی بیوی نے کھانے میں خاص اہتمام کیا تھا۔ سری پائے، بریانی اور کھیر۔ ہر کسی نے پیٹ کی گنجائش سے
join rekhta family!
-
ادب اطفال1947
-