- کتاب فہرست 185616
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1922
طب883 تحریکات291 ناول4404 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1435
- دوہا64
- رزمیہ105
- شرح182
- گیت83
- غزل1118
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1547
- کہہ مکرنی6
- کلیات675
- ماہیہ19
- مجموعہ4872
- مرثیہ376
- مثنوی817
- مسدس57
- نعت537
- نظم1204
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ180
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
تمام
تعارف
ای-کتاب202
افسانہ233
مضمون40
اقوال107
افسانچے29
طنز و مزاح1
خاکہ24
ڈرامہ59
ترجمہ2
ویڈیو 43
گیلری 4
بلاگ5
دیگر
ناولٹ1
خط10
سعادت حسن منٹو کے خاکے
منٹو
منٹو کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اس کے حق میں کم اور خلاف زیادہ۔ یہ تحریریں اگر پیشِ نظر رکھی جائیں تو کوئی صاحبِ عقل منٹو کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ میں یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ منٹو کے متعلق
نور جہاں سرور جہاں
میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ اس زمانے میں وہ بے بی تھی۔ حالانکہ پردے پروہ ہرگز ہرگز اس قسم کی چیز معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس کے جسم میں وہ تمام خطوط، وہ تمام قوسیں موجود تھیں جو ایک جوان لڑکی کے جسم میں ہو سکتی ہیں
عصمت چغتائی
آج سے تقریباً ڈ یڑھ برس پہلے جب میں بمبئی میں تھا، حیدر آباد سے ایک صاحب کا ڈاک کارڈ موصول ہوا۔ مضمون کچھ اس قسم کا تھا، ’’یہ کیا بات ہے کہ عصمت چغتائی نے آپ سے شادی نہ کی؟ منٹو اور عصمت۔ اگر یہ دو ہستیاں مل جاتیں تو کتنا اچھا ہوتا مگر افسوس کہ عصمت
میرا صاحب
یہ سن سینتیس کا ذکر ہے۔ مسلم لیگ روبہ شباب تھی۔ میں خود شباب کی ابتدائی منزلوں میں تھا جب خواہ مخواہ کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ صحت مند تھا، طاقت ور تھا اور جی میں ہر وقت یہی خواہش تڑپتی تھی کہ سامنے جو قوت آئے اس سے بھڑ جاؤں۔ اگر کوئی قوت
مرلی کی دھن
اپریل کی تیئس یا چوبیس تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا۔ پاگل خانے میں شراب چھوڑنے کے سلسلے میں زیر علاج تھا کہ شیام کی موت کی خبر ایک اخبار میں پڑھی۔ ان دنوں ایک عجیب و غریب کیفیت مجھ پرطاری تھی۔ بے ہوشی اور نیم بے ہوشی کے ایک چکر میں پھنسا ہوا تھا۔
تین گولے
حسن بلڈنگز کے فلیٹ نمبر ایک میں تین گولے میرے سامنے میز پر پڑے تھے، میں غور سے ان کی طرف دیکھ رہا تھااور میرا جی کی باتیں سن رہا تھا۔ اس شخص کو پہلی بار میں نے یہیں دیکھا۔ غالباً سن چالیس تھا۔ بمبے چھوڑ کرمجھے دہلی آئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔
چراغ حسن حسرت
مولانا چراغ حسن حسرت جنہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے حسرت صاحب کہتا ہوں، عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ویسے یہ دودھ پلانے والے جانوروں کی قبیل سے نہیں ہیں حالانکہ کافی بڑے کان رکھتے ہیں۔
اشوک کمار
نجم الحسن جب دیوکارانی کو لے اڑا تو بمبئی ٹاکیز میں افراتفری پھیل گئی۔ فلم کا آغاز ہو چکا تھا۔ چند مناظر کی شوٹنگ پایہ تکمیل کو پہنچ چکی تھی کہ نجم الحسن اپنی ہیروئن کو سلولائڈ کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے گیا۔ بمبے ٹاکیز میں سب سے زیادہ
اختر شیرانی سے چند ملاقاتیں
خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ حافظہ ا س قد ر کمزور ہے کہ نام، سن اور تاریخ کبھی یاد ہی نہیں رہتے۔ امرتسر میں غازی عبدالرحمن صاحب نے ایک روزانہ پرچہ’’مساوات‘‘ جاری کیا۔ اس کی ادارت کے لئے باری علیگ (مرحوم) اور ابو العلاء چشتی الصحافی(حاجی لق لق)
کشت زعفران
’’لائٹس اون۔۔۔ فین اوف۔۔۔ کیمرہ ریڈی۔۔۔ شارٹ مسٹر جگتاپ!‘‘ ’’سٹارٹڈ‘‘ ’’سین تھر ٹی فور۔۔۔ ٹیک ٹن۔‘‘ ’’نیلا دیوی آپ کچھ فکر نہ کیجئے۔ میں نے بھی پشاور کا پیشاب پیاہے۔‘‘ ’’کٹ کٹ‘‘ لائٹس اون ہوئیں۔ وی ایچ ڈیسائی نے رائفل ایک طرف
آغا حشر سے دو ملاقاتیں
تاریخیں اور سن مجھے کبھی یاد نہیں رہے، یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون لکھتے وقت مجھے کافی الجھن ہو رہی ہے۔ خدا معلوم کون سا سن تھا اور میری عمر کیا تھی، لیکن صرف اتنا یاد ہے کہ بصد مشکل انٹرنس پاس کرکے اور دو دفعہ ایف۔ اے میں فیل ہونے کے بعد میری طبیعت پڑھائی
ستارہ
لکھنے کے معاملے میں، میں نے بڑے بڑے کڑے مراحل طے کیے ہیں لیکن مشہور رقاصہ اور ایکٹرس ستارہ کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرنے میں مجھے بڑی ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے، آپ تو اسے ایک ایکٹریس کی حیثیت سے جانتے ہیں جو ناچتی بھی ہے اور خوب ناچتی
پری چہرہ نسیم بانو
میرا فلم دیکھنے کا شوق امرتسر ہی میں ختم ہو چکا تھا۔ اس قدر فلم دیکھے تھے کہ اب ان میں میرے لئے کوئی کشش ہی نہ رہی تھی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب میں ہفتہ وار’’مصور‘‘ کو ایڈٹ کرنے کے سلسلے میں بمبئی پہنچا تو مہینوں کسی سینما کا رخ نہ کیا۔ پرچہ فلمی
نرگس
عرصہ ہوا، نواب چھتاری کی صاحب زادی تسنیم (مسز تسنیم سلیم) نے مجھے ایک خط لکھا تھا: ’’تو کیا خیال ہے آپ کا اپنے بہنوئی کے متعلق؟ وہ جو اندازہ آپ کی طرف سے لگا کر لوٹے ہیں تو مجھے اپنے لیے شادی مرگ کا اندیشہ ہوا جاتا ہے۔ اب میں آپ کو تفصیل سے بتادوں
رفیق غزنوی
معلوم نہیں کیوں لیکن میں جب بھی رفیق غزنوی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے معاً محمود غزنوی کا خیال آتا ہے جس نے ہندوستان پرسترہ حملے کیے تھے جن میں سے بارہ مشہور ہیں۔ رفیق غزنوی اور محمود غزنوی میں اتنی مماثلت ضرور ہے کہ دونوں بت شکن ہیں۔ رفیق غزنوی
باری صاحب
مستبد اور جابر حکمرانوں کا عبرت ناک انجام روس کے گلی کوچوں میں صدائے انتقام زاریت کے تابوت میں آخری کیل ان تین جلی سرخیوں کے قدِ آدم ا شتہار امرتسر کی متعدد دیواروں پر چسپاں تھے۔ لوگ زیادہ تر صرف یہ سرخیاں ہی پڑھتے تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں
پارو دیوی
’’چل چل رے نوجوان‘‘ کی ناکامی کا صدمہ ہمارے دل و دماغ سے قریب قریب مند مل ہو چکا تھا۔ گیان مکرجی، فلمستان کے لیے ایک پروپیگنڈہ کہانی لکھنے میں ایک عرصے سے مصروف تھے۔ کہانی لکھنے لکھانے اور اسے پاس کرانے سے پیشتر نلنی جیونت اور اس کے شوہر وریندر
انور کمال پاشا
اگر کسی اسٹوڈیو میں آپ کو کسی مرد کی بلند آواز سنائی دے،اگر آپ سے کوئی بار بار ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے بڑے اونچے سروں میں بات کرے، یا کسی محفل میں کوئی اس انداز سے بول رہے ہیں جیسے وہ سانڈے کا تیل بیچ رہے ہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ حکیم
دیوان سنگھ مفتون
لغت میں’’مفتون‘‘ کا مطلب عاشق بیان کیا گیا ہے۔ اب ذرا اس عاشق زار کا حلیہ ملاحظہ فرمائیے۔ ناٹا قد، بھّدا جسم، ابھری ہوئی توند، وزنی سر جس پر چھدرے کھچڑی بال جو کیس کہلانے کے ہرگز مستحق نہیں۔ اکٹھے کیے جائیں تو بمشکل کسی کٹر برہمن کی چوٹی بنے۔ گہرا
پراسرار نینا
شاہدہ جوکہ محسن عبداللہ کی فرماں بردار بیوی تھی اور اپنے گھرمیں خوش تھی اس لیے کہ علی گڑھ میں میاں بیوی کی محبت ہوئی تھی اور یہ محبت ان دونوں کے دلوں میں ایک عرصے تک برقرار رہی۔ شاہدہ اس قسم کی لڑکی تھی جو اپنے خاوند کے سوا اور کسی مرد کی طرف نظر
نواب کاشمیری
یوں تو کہنے کو ایک ایکٹر تھا جس کی عزت اکثر لوگوں کی نظر میں کچھ نہیں ہوتی، جس طرح مجھے بھی محض افسانہ نگار سمجھا جاتا ہے یعنی ایک فضول سا آدمی۔ پر یہ فضول سا آدمی اس فضول سے آدمی کا جتنا احترام کرتا تھا، وہ کوئی بے فضول شخصیت، کسی بے فضول شخصیت کا
کے کے
یہ اس مشہور ایکٹریس کا نام ہے جو ہندوستان کے متعدد فلموں میں آچکی ہے اور آپ نے یقیناً اسے سیمیں پردے پر کئی مرتبہ دیکھا ہوگا۔ میں جب بھی اس کا نام کسی فلم کے اشتہار میں دیکھتا ہوں تو میرے تصور میں اس کی شکل بعد میں، لیکن سب سے پہلے اس کی ناک ابھرتی
join rekhta family!
-
ادب اطفال1922
-