- کتاب فہرست 180548
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت86
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
سلام بن رزاق کے افسانے
دہشت
فسادات کے دوران کرفیو میں گھرے ایک ایسےعام آدمی کی کہانی، جو دہشت کی وجہ سے بول تک نہیں پاتا۔ وہ آدمی ڈرتے ہوئے کسی طرح اپنے محلے تک پہنچتا ہے۔ وہاں اسے اندھیرے میں ایک سایہ لہراتا نظر آتا ہے۔ اس سائے سے خود کو بچانے کے لیے وہ اسے اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ سائے کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ خوف سے وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اگلے ہی لمحہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ سایہ اس کے قدموں میں پڑا اس سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہے۔
زندگی افسانہ نہیں
’’یہ کہانی ایک مذہبی مسلم خاندان میں رہنے والی عورتوں کی خوفناک حالات کو بیان کرتی ہے۔ فیکٹری کی نوکری چلی جانے سے جمال الدین مسجد میں امام ہو جاتا ہے۔ مذہب سے وابستگی کے بعد وہ خانگی ذمہ داریوں کو ایک طرح سے بھول ہی جاتا ہے۔ اس کی بیوی جیسے تیسے کرکے گھر چلاتی ہے۔ ماں کی مدد کرنے کے ارادے سے بڑی بیٹی جمیلہ میٹرک کے بعد ایک اسکول میں نوکری کرنے لگتی ہے۔ وہاں اس کی ملاقات اسلم سے ہوتی ہے، جس سے وہ چاہ کر بھی شادی نہیں کر پاتی اور خانگی الجھنوں میں پھنسی اپنی زندگی گزار دیتی ہے۔‘‘
ایکلویہ کا انگوٹھا
’’یہ افسانہ ایک پورانک کتھا کو بنیاد بنا کر موجودہ صورت حال کو بیان کرتا ہے۔ کہانی اور اس کے کردار وہی ہیں، بس ان کے حالات اور نظام تعلیم بدل گیا ہے۔ ایکلویہ دلت سماج کا ایک ہونہار طالب علم ہے۔ میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے وہ سناتن کالج میں داخلہ لیتا ہے۔ کالج میں اس کی کارکردگی سب سے بہتر ہوتی ہے، جب وہ بہترین نمبروں سے ڈگری حاصل کر لیتا ہے تو گرو درونا چاریہ اس سے دکشنا مانگتے ہیں۔ دکشنا میں وہ اس سے پہلے کی ہی طرح دائیں ہاتھ کا انگوٹھا مانگتے ہیں۔ ایکلویہ انھیں اپنا انگوٹھا کاٹ کر دے دیتا ہے۔ مگر اس بار وہ اپنا انگوٹھا دیکر مات نہیں کھاتا، کیونکہ یہ آدھونک ایکلویہ دائیں ہاتھ سے نہیں، بائیں ہاتھ سے قلم پکڑتا ہے۔‘‘
باہم
’’کہانی ایک ایسی حاملہ کی روداد بیان کرتی ہے جس کے بچہ کی پیدائش بابری انہدام کے دوران ہونے والی ہوتی ہے۔ ایک روز اچانک اس کا جی گوشت کھانے کا کرتا ہے اور وہ قصائی کی دکان پر گوشت لینے جاتی ہے۔ وہاں وہ ایک بکرے کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھتی ہے۔ گوشت لے کر گھر آتے ہوئے اس کے ہاتھ سے گوشت کی تھیلی کو ایک کتیا چھین کر بھاگ جاتی ہے۔ وہ گھر آتی ہے اور باسی روٹی کھا کر سو جاتی ہے۔ نیند میں وہ ایک ڈراؤنا خواب دیکھتی ہے، جسکی وجہ سے اسے وقت سے پہلے ہی درد زہ ہونے لگتا ہے۔ اس کا شوہر اسے اسپتال لے جاتا ہے، جہاں وہ دو مردہ بچوں کو جنم دیتی ہے۔‘‘
ندی
ندی بہت بڑی تھی۔ کسی زمانے میں اس کا پاٹ کافی چوڑا رہا ہوگا۔ مگر اب تو بے چاری سوکھ ساکھ کر اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب اس کے دونوں کناروں پر تاڑ اور ناریل کے آسمان گیر درخت اگے ہوئے تھے جن کے گھنے سائے ندی کے گہرے، شانت اور شفاف
انجام کار
’’یہ افسانہ ایک ایسے شخص کی بے بسی کی داستان ہے، جو ممبئی کی ایک چالی میں رہتا ہے۔ اسے اور اس کی بیوی کو وہاں کا ماحول بالکل پسند نہیں۔ ایک دن ان کی چالی میں کچی دارو کا دھندہ کرنے والے شامو دادا سے اس کا جھگڑا ہو جاتا ہے، جس کی شکایت وہ پولس میں کرتا ہے، مگر پولس یہ کہہ کر شکایت درج کرنے سے انکار کر دیتی ہے کہ بدمعاشوں کی شکایت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، وہ لوگ تو ضمانت پر چھوٹ جا ئینگے، پھر بعد میں اسے ہی پریشانی ہوگی۔ پولس کی یہ باتیں سن کر وہ شخص اتنا بے بس ہو جاتا ہے کہ اپنی اس بے بسی کو دور کرنے کے لیے شامو کی ہی دکان پر شراب پینے چلا جاتا ہے۔‘‘
سودا
میری عمر چالیس سے تجاوز کر چکی ہے۔ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ آگے کرنے کا ارادہ بھی نہیں ہے۔ دراصل میں شادی کے انسٹی ٹیوشن پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ سماج میں شادی کی بڑی اہمیت ہے، ہوگی۔ مذہب بھی اس پر خاص زور دیتا ہے، دیتا رہے۔ مگر میرا مشاہدہ تو یہ
لذتِ گریہ
اس دن اتفاق سے قیس اور لیلیٰ بس اسٹاپ پر مل گئے۔ بس کے آنے میں دیر تھی۔ لیلیٰ بار بارمنی بیگ سنبھالتی، چھوٹے رومال سے پیشانی کا پسینہ خشک کرتی۔ کبھی کلائی کی گھڑی کو دیکھتی تو کبھی گردن اٹھا کر دور تک پھیلی سڑک پر نگاہ ڈال لیتی۔ یہ سڑک نسبتاً کم بھیڑبھاڑ
حلالہ
پیر خان ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر اپنا بڑا سا رومال ہلاتا ہوا حوض کے کنارے بنے چبوترے پر آ بیٹھا۔ دینو (دین محمد) ابھی اندر ہی تھا۔ وہ شاید اپنی آخری دو رکعتیں ادا کر رہا تھا۔ پیر خان نے اپنی ٹوپی نکال کر چبوترے پر رکھدی اور اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرنے
مسیحا
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو قاعدے اور قانون کی بہت عزت کرتا ہے اور انہیں اسی طرح مانتا ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی توقع کرتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان قوانین پر اسی طرح عمل کریں۔ اس کے لیے وہ جہاں جہاں ممکن ہوتا لوگوں کو قوانین کی خلاف ورزی کرنے سے روکتا اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ایک روز سبھی لوگوں نے ملکر پولیس میں اس کی شکایت کر دی اور پولیس نے شہر کا امن درہم برہم کرنے کے الزام میں اسے گرفتار کر لیا ۔
آدمی اور آدمی
انسانی فطرت اور رویے کو پیش کرتی کہانی، جس میں ایک ساتھ دو واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔ پہلے واقعہ میں ریلوے ٹریک پر پھنسے ایک بچہ کو بچانے کے لیے ایک نوجوان اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ وہیں دوسرے واقعہ میں فسادات کے دوران ایک نوجوان اپنے مذہب کی برتری ثابت کرنے کے لیے نہ صرف ایک عورت کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کر دیتا ہےبلکہ اس کے چھوٹے بچے کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔
منقار
بیگم نوری رحمان لباس تبدیل کرکے آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔ ایک نگاہ اپنے سراپے پر ڈالی۔ شیفون کے ہلکے گلابی رنگ کے سوٹ میں ان کا روپ گلاب کے پھول ہی کی طرح نکھر گیا تھا۔ بال سلیقے سے کاندھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ گہرے براؤن رنگ کے بالوں کے درمیان ان کے
سگنل
وہ فٹ پاتھ پر کھڑا گرین سگنل کا انتظار کر رہا تھا۔ سڑک پر کاریں، موٹر سائیکل، آٹو رکشا، ٹیکسیاں، بسیں اور لاریاں تیزی سے گزر رہی تھیں۔فٹ پاتھ پر اسکے دائیں بائیں ایک ایک دو دو کرکے راہگیر اکٹھا ہوتے جا رہے تھے۔ جوان، بوڑھے، مرد، عورتیں، بچے سب سگنل
کام دھینو
وہ مارچ کی ایک صاف و شفاف صبح تھی اور سورج پہاڑی کے پیچھے سے یوں طلوع ہو رہا تھا جیسے کوئی نٹ کھٹ بالک کسی نئی شرارت کی فکر میں دیوار کی اوٹ سے جھانک رہا ہو۔ صبح کی ہوا کے لطیف اور خوش گوار جھونکے جوار کی پکی فصل کو ہولے ہولی چھیڑتے گزر رہے تھے، جیسے
درندہ
’’درندہ آیا۔۔۔د رندہ آیا۔۔۔‘‘ بستی میں چاروں طرف ایک شور سا اٹھا۔ دھڑا دھڑ کھڑکیاں اور دروازے بند کر لیے گئے۔ نوجوان لاٹھی، بلّم، تیر تفنگ لے کر گھروں سے باہر نکلے۔ گلیوں، کوچوں اور سڑکوں پر درندے کی تلاش شروع ہوگئی۔ گھنٹوں پکڑو، مارو، جانے نہ پائے
آخری کنگورا
یہ کہانی ملک میں ہونے والے کسی بھی بم دھماکے کے بعد پولس اور خفیہ ایجنسی کے ذریعے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو بیان کرتی ہے۔ محمد علی پراپرٹی ڈیلر ہے۔ وہ اپنے آفس میں بیٹھا ہے کہ کچھ پولس والے اسے اٹھاکر لے جاتے ہیں۔ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اسے شہر میں ہوئے بم بلاسٹ کے شک میں اٹھایا ہے۔ محمد علی اپنی بے گناہی کے بارے میں ہر طرح کی صفائی پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ شخص اس کی بے گناہی کی گواہی دیگا جسے اس نے بم بلاسٹ کے وقت بچایا تھا۔ اس شخص سے ملنے اسپتال جانے پر پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص تو کوما میں چلا گیا ہے اور پتہ نہیں کہ اسے کب ہوش آئے گا۔
استفراغ
آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میں جوں ہی جلسہ گاہ سے باہر نکلا کسی نے مجھے پیچھے سے آواز دی، میں مڑا۔ صفدر لمبے لمبے ڈگ بھرتا میری طرف آ رہا تھا۔ ’’بھئی، سب سے پہلے تو اس انعام کے لیے تمہیں مبارکباد۔‘‘ اس نے تپاک سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ، میں نے
کلہاڑی
باہر دن کے اجالے نے ابھی مکمل طور پر اپنے پر سمیٹے نہیں تھے مگر جھونپڑے کے اندر اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔ جھونپڑے کے ایک کونے میں راگی منہ پر اپنی پھٹی دھوتی کا پلّو ڈالے پڑی تھی۔ اس نے اپنے گھٹنے پیٹ میں اس طرح سکوڑ لیے تھے کہ دھندلکے میں وہ محض میلے
گیت
’’یہ ایک بچے کی نفسیات کی کہانی ہے۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو ایک ایسے دور دیش کی کہانی سناتا ہے جہاں لوگوں کے ساتھ ایک پری رہتی تھی۔ وہاں کےلوگ خوشحال اور ایک دوسرے کی مدد کرنے والے تھے۔ پری ان کے ساتھ رہتی اور انہیں گیت سنایا کرتی۔ پھر رفتہ رفتہ پری کے ساتھ لوگوں کا رویہ بدلنے لگا اور وہ پری کو بھول گئے۔ ایک دن لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے کے ارادے سے جب اپنے گھروں سے نکلے تو پریشان پری نے انہیں ایک ایسا گیت سنایا، جسے اس سے پہلے انہوں نے کبھی نہیں سنا تھا۔ اس گیت کا ان پر ایسا اثر ہوا کہ لوگ پھر پہلے کی طرح ہی پیار محبت سے رہنے لگے۔‘‘
بڑے قد کا آدمی
جوں ہی میری نظر اس پر پڑی، میں ایک پل کے لیے ٹھٹکا۔ وہ دوسری فٹ پاتھ پر تھا۔ میں نے تیزی سے آگے نکل جانا چاہا مگر دوسرے ہی لمحے اس کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ میرا نام لے کر مجھے پکار رہا تھا۔شاید اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ اب رکنے کے سوا کوئی چارا
بٹوارا
ایسے دو بھائیوں کی کہانی، جو اپنی ماں کے سامنے تو بہت پیار محبت سے رہتے ہیں، لیکن باہر ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے رہتے ہیں۔ ان کی ماں کو جب ان کے اس رویے کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو وہ انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی ماں کی بات سننے سے منع کر دیتا ہے۔ اس صدمے میں ماں کی جان چلی جاتی ہے۔ اپنی دشمنی کی وجہ سے وہ ماں کی لاش کو بھی دو ٹکڑوں میں بانٹ لیتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق آخری رسومات پوری کرتے ہیں۔
سبق
ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا مگر چاروں طرف ملگجا اجالا پھیلنے لگا تھا۔ تمام بھکشو کلندک جھیل میں غسل کرنے کے بعد ’وینووَن‘ لوٹ آئے تھے۔ وینووَن کے چاروں طرف بانسوں کا جنگل تھا۔ بھکشوؤں نے بانسوں کو کاٹ چھانٹ کر چھوٹی چھوٹی کٹیائیں بنالی تھیں۔ ہر کٹیا
نارد نے کہا
اور پھرنارد نے والیا سے پوچھا ’’تو یہ ککرم کس کے لیے کرتا ہے ؟‘‘ والیا نے نیزے کو اپنے ہاتھوں پر تولتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اپنے بیوی بچّوں کے لیے‘‘ نارد مضحکہ اڑانے والے انداز میں ہنسے، والیا انھیں سرخ آنکھوں سے گھورتا ہوا بولا۔ کیوں؟
دی پراڈِگل سَن
’’جاؤ۔۔۔‘‘ حوالدار نے اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ چق ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ سامنے ایک بڑی سی میز کے پیچھے وہی خونخوار چہرے والا جیلر بیٹھا کوئی فائل الٹ پلٹ رہا تھا، جِسے اس نے بار ہا قیدیوں کے بیرکس کا دورہ کرتے، قیدیوں کو گالیاں دیتے اور کبھی
دھرماتما
رام محل ریسٹورنٹ کے سامنے حسبِ معمول بھکاریوں کی ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ بھوکے، مریل اور پھٹے حال لوگ، آنکھوں میں وحشت، ہونٹوں پر گالی اور بدن پر چیتھڑے۔ مرد، عورتیں، بوڑھے، بچے سب ریسٹورنٹ کے کنارے کنارے فٹ پاتھ پر ایک لمبی قطار میں بیٹھے کسی
لافٹر شو
آخر سرکار کو چونکنا ہی پڑا۔ بدعنوانی، ملاوٹ، کالا بازاری اور کمر توڑ مہنگائی کے سبب ملک کی اقتصادی صورتِ حال انتہائی نازک ہو گئی تھی۔ غریبی، بھکمری اور فاقوں نے عوام کو زندگی سے بیزار کردیا تھا۔لوگوں کے چہروں سے زندگی کی چمک دمک ختم ہوتی جا رہی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-