سلیم کوثر
غزل 57
نظم 19
اشعار 49
پکارتے ہیں انہیں ساحلوں کے سناٹے
جو لوگ ڈوب گئے کشتیاں بناتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تم تو کہتے تھے کہ سب قیدی رہائی پا گئے
پھر پس دیوار زنداں رات بھر روتا ہے کون
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کیسے ہنگامۂ فرصت میں ملے ہیں تجھ سے
ہم بھرے شہر کی خلوت میں ملے ہیں تجھ سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 6
ملنا نہ ملنا ایک بہانہ ہے اور بس تم سچ ہو باقی جو ہے فسانہ ہے اور بس لوگوں کو راستے کی ضرورت ہے اور مجھے اک سنگ_رہ_گزر کو ہٹانا ہے اور بس مصروفیت زیادہ نہیں ہے مری یہاں مٹی سے اک چراغ بنانا ہے اور بس سوئے ہوئے تو جاگ ہی جائیں_گے ایک دن جو جاگتے ہیں ان کو جگانا ہے اور بس تم وہ نہیں ہو جن سے وفا کی امید ہے تم سے مری مراد زمانہ ہے اور بس پھولوں کو ڈھونڈتا ہوا پھرتا ہوں باغ میں باد_صبا کو کام دلانا ہے اور بس آب و ہوا تو یوں بھی مرا مسئلہ نہیں مجھ کو تو اک درخت لگانا ہے اور بس نیندوں کا رت_جگوں سے الجھنا یوں_ہی نہیں اک خواب_رائیگاں کو بچانا ہے اور بس اک وعدہ جو کیا ہی نہیں ہے ابھی سلیمؔ مجھ کو وہی تو وعدہ نبھانا ہے اور بس