- کتاب فہرست 188056
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1967
طب915 تحریکات300 ناول4644 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1448
- دوہا65
- رزمیہ111
- شرح198
- گیت83
- غزل1166
- ہائیکو12
- حمد45
- مزاحیہ36
- انتخاب1581
- کہہ مکرنی6
- کلیات688
- ماہیہ19
- مجموعہ5042
- مرثیہ379
- مثنوی832
- مسدس58
- نعت550
- نظم1247
- دیگر69
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی19
- قطعہ62
- رباعی296
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
شفیق الرحمان کے اقوال
اکثر حضرات افسانے کو پڑھنے سے پہلے صفحات کو جلدی سے الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں اور اگر انہیں کہیں سماج کا لفظ نظرآجائے تو وہ فوراً افسانہ چھوڑدیتے ہیں۔ پوچھا جائے کہ یہ کیوں؟ تو جواب ملتا ہے، ’’جناب اس کا پلاٹ تو پہلے ہی معلوم ہوگیا۔ یقین نہ ہو تو سن لیجیے!‘‘ اس کے بعد وہ پلاٹ بھی سنادیں گے جو قریب قریب صحیح ہی نکلے گا۔
اگر اسی طرح ہر بات میں غریب سماج کو قصوروار ٹھہرایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب کسی کو بخار چڑھے گا تو وہ منہ بسور کر کہے گا کہ یہ سماج کاقصور ہے۔ کوئی کمزور ہوا تو کہے گا کہ یہ سماج کی برائی ہے اور اگر کوئی بہت موٹا ہوگیا تو بھی سماج ہی کو کوسا جائے گا۔ نالائق لڑکے امتحان میں فیل ہونے کی وجہ سماج کی کھوکھلی بنیادوں کو قرار دیں گے۔ یہاں تک کہ گالیاں بھی یوں دی جائیں گی کہ ’’خدا کرے تجھ پر سماج کا ظلم ٹوٹے۔‘‘
عجیب سی بات ہے کہ لوگ موٹے تازے آدمیوں کو محبت سے مستثنی قرار دیتے ہیں۔ وہ یہ تصور میں لاہی نہیں سکتے کہ ایک انسان جس کا وزن اڑھائی من سے زیادہ ہو جس کی دو ٹھوڑیاں ہوں، جس کی توند طلوع ہو رہی ہو، اس کے دل میں بھی محبت کا جذبہ سماسکتا ہے۔ عموماً یہی سوچا جاتا ہے کہ اس سائز اور اس نمبر کے آدمی ہمیشہ کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق سوچتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ایک فربہ خاتون کو سریلی آواز میں دردناک گانا گاتے دیکھ کر بجائے رونے کے ہنسی آتی ہے اور دل میں یہی خیال آتا ہے کہ اب یہ گانا گاکر فوراً ایک بھاری سا ناشتا تناول فرمائیں گی اور چند ڈکاریں لینے کے بعد مزے سے سوجائیں گی۔ اٹھیں گی تو پھر کھائیں گی۔
یہ مرد ایورسٹ پر چڑھ جائیں، سمندر کی تہ تک پہنچ جائیں، خواہ کیسا ہی ناممکن کام کیوں نہ کرلیں، مگر عورت کو کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ بعض اوقات ایسی احمقانہ حرکت کر بیٹھتے ہیں کہ اچھی بھلی محبت نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور پھر عورت کادل۔۔۔ ایک ٹھیس لگی اور بس گیا۔ جانتے ہیں کہ حسد اور رشک تو عورت کی سرشت میں ہے۔ اپنی طرف سے بڑے چالاک بنتے ہیں مگر مرد کے دل کو عورت ایک ہی نظر میں بھانپ جاتی ہے۔
میرا ذاتی نظریہ تو یہی ہے کہ ایک تندرست انسان کو محبت کبھی نہیں کرنی چاہیے۔ آخر کوئی تک بھی ہے اس میں؟ خواہ مخواہ کسی کے متعلق سوچتے رہو، خواہ وہ تمہیں جانتا ہی نہ ہو۔ بھلا کس فارمولے سے ثابت ہوتا ہے کہ جسے تم چاہو وہ بھی تمہیں چاہیے۔ میاں یہ سب من گڑھت قصے ہیں۔ اگر جان بوجھ کر خبطی بننا چاہتے ہوتوبسم اللہ! کیے جاؤ محبت۔ ہماری رائے تو یہی ہے کہ صبر کرلو۔
join rekhta family!
-
ادب اطفال1967
-