- کتاب فہرست 182760
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1919
طب861 تحریکات289 ناول4227 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1430
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح182
- گیت81
- غزل1045
- ہائیکو12
- حمد39
- مزاحیہ36
- انتخاب1534
- کہہ مکرنی6
- کلیات663
- ماہیہ19
- مجموعہ4779
- مرثیہ372
- مثنوی811
- مسدس56
- نعت522
- نظم1172
- دیگر67
- پہیلی16
- قصیدہ179
- قوالی19
- قطعہ57
- رباعی289
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
شموئل احمد کے افسانے
سنگھاردان
اس افسانے میں فسادات کے بعد کی انسانی صورت حال کو موضوع بنایا ہے۔ سنگھاردان جو نسیم جان (طوائف) کا موروثی سنگھاردان تھا، کے ذریعے برجموہن کے خاندان کی سوچ اور طرز فکر کو طلسماتی طور پر تبدیل ہوتے دکھایا گیا ہے۔ برجموہن، نسیم جان کا قیمتی سنگھاردان اس سے چھین کر اپنے گھر لے آتا ہے جسے وہ خود، اس کی بیوی اور تینوں بیٹیاں استعمال کرنے لگتی ہیں لیکن اس کے استعمال کے بعد گھر کے تمام لوگوں کا طرز احساس یکایک تبدیل ہونے لگتا ہے اور ایک طوائف کی خصلتیں ان میں پنپنے لگتی ہیں۔ یہاں کرداروں کی قلب ماہئیت کو جس طلسماتی پیرایے میں پیش کیا گیا ہے وہ معاشرے کے تشکیلی عناصر کے متعلق کئ حوالوں سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
اونٹ
افسانہ اونٹ سماج کے ان نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کی نفسیات کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے جو منبر پر بیٹھ کر عوام کو تو دین اسلام اور صحیح راہ پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن خود کوئی غلط کام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ در اصل اس وعظ و نصیحت کے پیچھے ان کا مقصد اپنی حیثیت کو، لوگوں کے سامنے برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ کہانی میں مولانا اور سکینہ کے جنسی تعلقات کو بیان کیا گیا ہے اور دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے مولانا کی مکروہ سوچ کو واضح کیا ہے۔
سراب
بدرالدین جیلانی لیڈی عاطفہ حسین کی میّت سے لوٹے تو اداس تھے۔ اچانک احساس ہوا کہ موت بر حق ہے۔ ان کے ہمعصر ایک ایک کرکے گذر رہے تھے، پہلے جسٹس امام اثر کا انتقال ہوا۔ پھر احمد علی کا اور اب لیڈی عاطفہ حسین بھی دنیائے فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ جیلانی کو
عنکبوت
وہ اب کیفے جاتا تھا۔۔۔ گھر پر چَٹنگ مشکل تھی۔ نجمہ بھی دل چسپی لینے لگی تھی۔ وہ نِٹ پر ہوتا اور جھنجھلا جاتا۔ نجمہ کسی نہ کسی بہانے آ جاتی اور اسکرین پر نظریں جمائے رہتی۔ اس دن اس نے ٹوک بھی دیا تھا۔ ’’یہ لیڈی ڈائنا ٹو تھاوزنڈ کیا کہہ رہی ہے۔؟‘‘
منرل واٹر
منرل واٹر اجنبی لوگوں کے درمیان تعلق کی ایسی نوعیت کو پیش کرتا ہے۔ جس میں جذبات و احساسات کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے زمانے کی تبدیلی نے اپنے تہذیبی رویوں کی اہمیت کو پاش پاش کردیا ہے۔ کہانی میں ایک ڈسپیچ کلرک کو پہلی مرتبہ اے سی ڈبے میں سفر کرنے کا تجربہ ہوتا ہے، جس میں اس کے سامنے والی برتھ پر بورژوا طبقے کی ایک خاتون بھی سفر کررہی ہوتی ہے۔ وہ رات کے کسی پہر اپنے جنسی جذبے کے سبب کلرک سے تعلق قائم کر لیتی ہے۔ اور صبح، زندگی پھر اپنے معمول پر آ جاتی ہے۔
کاغذی پیراہن
آمنہ جھنجھلا گئی۔ بی بی جی نے پھر بہانہ بنایا تھا۔ اس بار ان کی چابی گم ہوگئی تھی اور آمنہ سے بن نہیں پڑا کہ پیسے کا تقاضا کرتی۔ وہ نامراد لوٹ گئی۔ آمنہ کو یقین ہونے لگا کہ بی بی جی اس کے پیسے دینا نہیں چاہتیں۔ اس کو غصہ آ گیا۔. وہ کوئی بھیک
مصری کی ڈلی
راشدہ پر ستارہ زہرہ کا اثر تھا۔۔۔ وہ عثمان کے بوسے لیتی تھی! راشدہ کے رخسارملکوتی تھے۔ ہونٹ یاقوتی۔ دانت جڑے جڑے ہم سطح اور ستار ہ زہرہ بُرج حوت میں تھا اور وہ سنبلہ میں پیدا ہوئی تھی۔ سنبلہ میں قمر آب و تاب کے ساتھ موجود تھا اور راشدہ کے گالوں
بگولے
بگولے لتیکارانی نامی ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنی جنسی خواہشات کو دولت کے ترازو میں تولتی ہے اور ساتھ ہی اپنی انا کی تسکین کے لیے مرد پر حاوی ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔ اسی وجہ سے لتیکارانی ایک معصوم لڑکے کو اپنے جال میں پھانسنے اور جنسی جذبے کی تسکین کے لیے گھر بلاتی ہے لیکن لڑکے کی حرکتیں اس کی توقع کے برعکس ہوتی ہیں اور اپنی انا کو مجروح ہوتا ہوا دیکھ کر وہ اسے گھر سے نکال دیتی ہے۔
بدلتے رنگ
جب کہیں دنگا ہوتا سلیمان رکمنی بائی کا کوٹھا پکڑتا۔ اس کے ساتھ وہسکی پیتا اور دنگائیوں کو گالیاں دیتا۔ رکمنی بائی خود اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرتی اور پولیس کو ’’بھڑوی کی جنی‘‘کہتی۔ تب کہیں سلیمان کے دل کی بھڑاس نکلتی اور اس کو یہ جگہ محفوظ نظر آتی۔
کایا کلپ
اس کی بیوی پہلے غسل کرتی تھی۔۔۔ اور یہ بات اسے ہمیشہ ہی عجیب لگی تھی کہ ایک عورت اس نیت سے غسل کرے۔ بیوی کے بال لمبے تھے جو کمر تک آتے تھے۔ غسل کے بعد انہیں کھلا رکھتی۔ بستر پر آتی تو تکیے پر سر ٹکا کر زلفوں کو فرش تک لٹکا دیتی۔ پانی بوند بوند
ظہار
ظہار، شوہر بیوی کے تعلقات میں ظہار کے مسئلے کو پیش کرتا ہے۔ جس میں شوہر اگر اپنی بیوی سے کہہ دے کہ ’’تو میرے اوپر ایسی ہوئی جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘ تو بیوی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا اس پر حرام ہو جاتا ہے۔ کہانی میں اس پہلو کو بنیاد بناتے ہوئے کردار کو سچا مذہبی انسان بنتے ہوئے دکھایا گیا، جو اس گناہ کا کفارہ ادا کرتے کرتے خدا سے حقیقی محبت کو گلے لگا لیتا ہے۔
جھاگ
افسانہ جھاگ، رشتوں کی ان دیکھی ڈور میں، جذبات کو غیر محسوس طریقے پر بیان کرتا ہے اور دونوں کرداروں کے درمیان تعلق کی ایسی نوعیت کو پیش کرتا ہے جس میں دونوں کے دل ایک دوسرے کے لیے کسی خاص جذبے سے خالی ہیں۔ افسانے کا مرد کردار اسی بنا پر عورت سے تعلق قائم نہیں کرپاتا ہے۔
آخری سیڑھی کا مسافر
’’پہچانا۔۔۔؟‘‘شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے حد آہستہ سے اس نے یکایک سر گوشیوں کے انداز میں پوچھا تو میری آنکھیں اس کے چہرے پر روشنائی کے دھبّے کی طرح پھیل گئیں۔ اس کے بال کھچڑی ہو رہے تھے۔ آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں اور گال ٹین کے خالی ڈبّوں کی طرح پچکے ہوئے
نملوس کا گناہ
نملوس کا گناہ میں کرداروں کو علم نجوم۔ astronomy اور علم فلکیات astrology کی خصوصیات اور صفات کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے اور سیاروں اور ستاروں کی گردش کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیوں کو کرداروں کی شخصیت سے جوڑ کر دکھایا گیا ہے۔ کہانی میں نملوس نے، زحل ہونے یعنی نیکی کی خاصیت کی بنا پر اپنے باپ حکم اللّٰہ کو معاشرے میں مردود قرار دے دیا ہے، جو اپنے اندر راہو یعنی بدی کی خصوصیت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے نملوس کی پاک دامن بیوی حلیمہ کے ساتھ بدکاری کرتا ہے۔
آنگن کا پیڑ
’’آنگن کا پیڑ‘‘ اپنی جگہ اور اپنی جڑوں سے محبت کی کہانی ہے۔ جس میں رہ کر انسان اپنی زندگی کے کئ دور سے گزرتا ہے۔ اور وہاں کی ہر چیز سے اسے قلبی لگاؤ ہو جاتا ہے۔ افسانے کے مرکزی کردار کو آنگن میں لگے پیڑ سے بچپن سے محبت تھی۔ لیکن اس کے بیوی بچوں کو اس سے لگاؤ نہیں تھا اور بلوے کے دن یہی غیر جاندار پیڑ آتنکیوں سے اس کی جان بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
برف میں آگ
سلیمان کو اپنی بیوی کسی جزدان میں لپٹے ہوئے مذہبی صحیفے کی طرح لگتی تھی جسے ہاتھ لگاتے وقت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی شادی کو دس سال ہو گئے تھے لیکن وہ اب بھی سلیمان سے بہت کھلی نہیں تھی۔ سلیمان اس کو پاس بلاتا تو پہلے ادھر ادھر جھانک کر اطمینان
مر گھٹ
اونٹ کے گھٹنے کی شکل کا وہ آدمی اب بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے چہرے کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں اور گال قبر کی طرح اندر دھنسے ہوئے تھے۔ لگتا تھا کسی نے چہرے کی جگہ ہڈیاں رکھ کر چمڑی لپیٹ دی ہو۔ آنکھیں حلقوں میں دھنسی ہوئی تھیں اور کنپٹیوں کے قریب آنکھ کے
باگمتی جب ہنستی ہے
’’باگمتی جب ہنستی ہے۔‘‘ میں سیاستدانوں کے مکروہ چہرے کو پیش کیا گیا ہے جو جھوٹ، فریب، دھوکادھڑی سے عوام کا مال لوٹتے اور اگر ان میں سے کوئی آواز اٹھانا چاہے تو اس کا ذہنی استحصال کرکے، سیاسی داؤ پیچ سے اس کا منھ بند کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ کہانی میں کامتا پرشاد سیاستدانوں کے اسی چہرے کی نمائندگی کرتا ہے جو باڑھ پیڑت ہریا کے آواز کو چالاکی سے دبا دیتے ہیں۔
بہرام کا گھر
اب آنگن میں پتے نہیں سرسراتے تھے۔ درو دیوار پر کسی سائے کا گمان نہیں گزرتا تھا۔ بڑھیا کے آنسو اب خشک ہو چکے تھے۔ وہ روتی نہیں تھی۔ بیٹے کا ذکر بھی نہیں کرتی تھی۔ وہ اب دور خلا میں کہیں تکتی رہتی تھی۔ کبھی کبھی اس کے دل میں ہوک سی اٹھتی تو ہائے مولا
القمبوس کی گردن
القمبوس پیدا ہوا تو اس کی گردن پر ہلکا سا سبز نشان تھا ۔نشان دوج کے چاند کی طرح باریک تھا۔ شروع شروع میں کسی نے توجہ نہ دی کہ نشان کیسا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ پھیلتا گیا اور جب القمبوس کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو اس کی شکل تلوار سی ہو گئی۔ تب القمبوس
سبزرنگوں والا پیغمبر
ہم سب جس قصبے میں رہتے تھے وہ جسم کی رگوں کی طرح الجھی ہوئی پیچ در پیچ پہاڑیوں سے گھرا تھا۔ ہم میں سے بعض (جو ہم میں سے تھے) کچی اور کمزور قسم کی لکڑیوں کے مکانوں میں رہتے تھے۔ جہاں دیواریں کاغذ کی طرح پتلی اور باریک تھیں اور ہم میں سے بعض (جو ہم میں
join rekhta family!
-
ادب اطفال1919
-