- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
شوکت تھانوی کے طنز و مزاح
کرکٹ میچ
بعض دوستوں نے سیالکوٹ چلنے کو کہا تو ہم فوراً تیار ہوگئے مگر جب یہ معلوم ہوا کہ اس سفر کا مقصد کرکٹ میچ ہے تو یکایک سانپ سونگھ گیا۔ سفر کا تمام ولولہ ایک بیتی ہوئی یاد کی نظر ہوکر رہ گیا۔ اب لاکھ لاکھ سب پوچھتے ہیں کہ چکر آگیا ہے۔ فالج گرا ہے۔ قلب
سسرالی رشتہ دار
مصیبت یہ ہے کہ ریڈیو سیٹ سسرال میں بھی ہے اور وہاں کی ہر دیوار گوش دارد، مگر بزرگوں کا یہ مقولہ اس وقت رہ رہ کر اکسا رہا ہے کہ بیٹا پھانسی کے تختہ پر بھی سچ بولنا، خواہ وہ پھانسی زندگی بھر کی کیوں نہ ہو، موضوع جس قدر نازک ہے اسی قدر اخلاقی جرأت چاہتا
وکیل
ہندوستان میں جیسی اچھی پیداوار وکیلوں کی ہو رہی ہے اگر اتنا ہی غلہ پیدا ہوتا تو کوئی بھی فاقے نہ کرتا۔ مگر مصیبت تو یہ ہے کہ غلہ پیدا ہوتا ہے کم اور وکیلوں کی فصل ہوتی ہے اچھی۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وہی سب غلہ کھا جاتے ہیں اور باقی سب کے لیے فاقے چھوڑ
میں ایک شاعر ہوں
صاحب میں ایک شاعر ہوں چھپا ہوا دیوان تو خیر کوئی نہیں ہے۔ مگر کلام خدا کے فضل سے اتنا موجود ہے کہ اگر میں مرتب کرنے بیٹھوں تو ایک چھوڑ چار پانچ دیوان مرتب کر ہی سکتا ہوں۔ اپنی شاعری کے متعلق اب میں خود کیا عرص کروں البتہ مشاعروں میں جانے والے حضرات اگر
سودیشی ریل
دن بھر کے تھکے ماندے بھی تھے اور رات کو سفر بھی درپیش تھا مگر ’’بندے ماترم‘‘ کے نعروں پر کان کھڑے کرلینا ہماری ہمیشہ کی عادت ہے اور ان نعروں کو بھی ضد ہے کہ ہمارا چاہے جو حال بھی ہو بیمار ہوں، کسی ضروری کام سے باہر جارہے ہوں یا اور کوئی مجبوری ہو مگر
شادی حماقت ہے
شادی کے بعد سے اس بات پر غور کرنے کی کچھ عادت سی ہوگئی ہے کہ شادی کرنا کوئی دانشمدانہ فعل ہے یا حماقت! یعنی اگر یہ دانشمندی ہے تو پھر بعض اوقات اپنے بے وقوف ہونے کا بے ساختہ احساس کیوں ہونے لگتا ہے اور اگر یہ حماقت ہے تو اس حماقت میں دنیا کیوں مبتلا
پہلے عورت اس کے بعد مرد
یہ جو مہذب دنیا کے مردوں نے’’لیڈیز فرسٹ‘‘ والی تہذیب رائج کی ہے اس میں خواتین کی عزت افزائی خواتین کو بے وقوف بنانا ہی مقصود نہیں ہے بلکہ بڑی بڑی مصلحتیں ہیں۔ مثلاً یہی کہ ہر جگہ عورتوں کو پہلے بھیجا جائے تاکہ اگر کوئی مصیبت راہ میں حائل ہو تو پہلے
شوہر کی جنت
بات یہ ہے کہ ہم نے بیگم کو ہمیشہ اسی بات کا یقین دلایا ہے کہ ہم کو کسی اور جنت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہماری جنت تو صرف آپ کی ذات ہے۔ مگر واقعات اس کے سراسر خلاف ہیں جب کہ ہم کو تو مستقل طور پر یہ فکر ہےکہ اگر جنت میں ہمارا ساتھ ان ہی نیک بخت کا رہا
آزادی کا شوق
میں آپ سے عرض کروں کہ مجھ کو آزادی کا پہلے پہل کب شوق ہوا ہے؟ یہ ایک تفصیل طلب واقعہ ہے۔ اور میرا جی چاہتا ہے کہ یہ تفصیل پیش کر ہی دوں۔ خواہ آپ زندگی سےیا کم از کم مجھ سے بیزار ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ مگر ہو جانے دیجیے میرا یہ شوق پورا۔ بات اصل
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
بعض لوگوں کو خواہ مخواہ بھی پتھر لڑھکانے کی عادت ہوتی ہے اور عام گفتگو میں بھی وہ لٹریچر بگھارنے کے شوق میں کتابی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں اور اتنے بڑے بڑے الفاظ بولتے ہیں کہ سننے والا دل ہی دل میں ہجے اور معنی یاد کرتا رہ جاتاہے مثلاً اسی قسم کے
ان کی سسرال
مرزا صاحب نے لاکھ بار کہا کہ ہمارا جانا ٹھیک نہیں۔ اول تو تمہارے حالات کچھ نہایت نامعقول واقع ہوئے ہیں۔ دوسرے ہماری زبان خود ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ بات کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جو نہ کہنا تھا وہ کہہ گئے مگر مرزا نے ایک نہ سنی۔ دیرینہ مراسم کا
افیونی کی جنت
میر صاحب نے اپنے دونوں گھٹنوں کے اندر سے سر نکالتے ہوئے کہا، ’’بھائی سچ تو یہ ہے کہ غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں۔ چند روزہ زندگی خدا اسی طرح کاٹ دے، پھر مرنے کے بعد تو خدا جانے ہم افیونیوں کا کیا حشر ہوگا۔‘‘ مرزا صاحب نے جو اپنی پیالی
سسرال
گیدڑ کی جب موت آتی ہے وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ شہری کی جب شامت آتی ہے تو وہ دیہات میں شادی کر لیتا ہے۔ یہ شامت ہمارے بھاگ میں بھی تھی۔ خیر یوں تو ہم بھی کون سے کلکتہ، بمبئی کے رہنے والے ہیں۔ مگر پھر بھی شہر میں رہے سہے۔ شہر میں پڑھے، لیجیے ہوگئے شہری
اے دلربا تیرے لیے
شاعر چلغوزے کھا رہا تھا۔۔۔ سامنے کی چھت پر اس کی محبوبہ گنّا چوس رہی تھی۔۔۔ اور دونوں کے درمیان ایک گہری اور تنگ گلی حائل تھی۔ وہ سنگ دل گلی جس کی گہرائیاں صرف روپے سے پاٹی جاسکتی تھیں۔ شاعر کے افکارِ عالیہ اس خلیج کو پر نہیں کرسکتے تھے اس
اتوار
وہ مبارک ومسعود دن جس کی قدر شاہ داند یا بداندجوہری ’’یعنی یا تو عیسائی سمجھ سکتے ہیں یا ہمارے ایسے ملازمت پیشہ ان لوگوں کا یہاں ذکر ہی نہیں جو گھر بیٹھے شنبہ دوشنبہ‘‘ سب کو ایک ہی لاٹھی ہانکا کرتے ہیں اور ان کو خبربھی نہیں ہوتی کہ ہفتہ کے بعد کون
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-