Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Siraj Ajmali's Photo'

سراج اجملی

1966 | علی گڑہ, انڈیا

معاصر غزل کے اہم شاعروں میں شمار، غزل میں بالیدہ فکر، توانا احساسات، روایتی اور جدید اظہار کا سنگم

معاصر غزل کے اہم شاعروں میں شمار، غزل میں بالیدہ فکر، توانا احساسات، روایتی اور جدید اظہار کا سنگم

سراج اجملی کا تعارف

تخلص : 'سراجؔ'

اصلی نام : سراج الدین اجملی

پیدائش : 08 Nov 1966 | بلیا, اتر پردیش

جو نہیں ہوتا بہت ہوتی ہے شہرت اس کی

جو گزرتی ہے وہ اشعار میں آتی ہی نہیں

سراج اجملی کی  پیدائش 8 نومبر، 1966 کو بلیہ، اتر پردیش میں ہندوستان کی مشہور صوفی خانقاہ درگاہ شاہ ولی سکندرپور میں سید جمال الدین اجملی کے گھر میں ہوئی جو  پیشے سے اسکول ٹیچر تھے۔ ابتدا ہی سے یہ خانقاہ، قادری سلسلے کے صوفی بزرگوں کے اصولوں پر کاربند ہے۔ انہوں نے ہائی سکول گاندھی انٹر کالج، سکندرپور بلیہ سے، انٹر میڈایٹ الہ آباد کے مجیدیہ اسلامیہ انٹر کالج سے سائنس سائیڈ سے کیا اور بی ایس سی میں سی ایس پی ڈگری کالج میں داخلہ لیا۔ اسی دوران انہوں نے الہ آباد سے شائع ہونے والے اردو روزنامے “سفیر نو” کو 300 روپئے ماہانہ پر جوائن کر لیا۔ اس مدت میں سراج اجملی مستقل دائرہ شاہ اجمل میں مقیم رہے۔ جہاں کے سجادہ نشین مولانا شاہ سید احمد اجملی ان کے نانا اور  پیر ومرشد تھے۔ اردو کے مشہور ترقی پسند شاعر اور ترجمہ نگار اجمل اجملی، سجادہ نشین دائرہ شاہ اجمل کے بڑے بیٹے تھے۔ 1980 سے 1987 تک سراج اجملی کی رسمی تعلیم الہ آباد میں اور ادبی تربیت دائرۂ شاہ اجمل میں ہوئی۔ اجمل اجملی کے چھوٹے بھائی اور اپنے والد ماجد کے بعد دائرے کے سجادہ نشین سید اکمل اجملی، ان کے چھوٹے بھائی مولانا سید افضل اجملی کا سراج اجملی کی تربیت میں بہت بڑا ہاتھ رہا۔ بعد اذاں سراج اجملی نے سی پی ایم ٹی، پی ایم ٹی کی تیاری بھی کی لیکن طبیعت کسی میں لگی نہیں۔ اور انہوں نے کان پور یونیورسٹی سے پرائیویٹ بی اے کر لیا۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے 1986 میں دلی کا سفر کیا، جہاں ماہانہ ڈائجیسٹ ہدیٰ کے ہندی پرچے ”طہٰ“ میں ہندی کا شعبہ 700 روپئے ماہانہ پر جوائن کر لیا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں 1987 سے 1997 تک کیجوئل ایناؤنسر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ دہلی یونیورسٹی میں ماسٹرس (اردو) میں داخلہ لیا (چونکہ کان پور سے دو سالہ  بی اےکیا تھا، اس لئے برج کورس بھی کرنا پڑا)، جہاں 1989 میں ماسٹرس پورا کیا اور اسی برس جے آر ایف کا امتحان بھی پہلی ہی کوشش میں پاس کر لیا۔ دہلی یونیورسٹی میں نامور ادیب پرفیسر قمر رئیس صاحب کے زیرنگرانی اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا۔ آج کل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔

سراج اجملی کی شاعری اپنے آپ میں ایک منفرد جہان ہے، جہاں لفظ نہایت سادگی کے ساتھ گہرے معنی اور تہ داری کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کلام زندگی کے ان پوشیدہ گوشوں سے روشناس کراتا ہے جو عام نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان کے کلام میں انسانی احساسات اور جذبات کا ایسا عمیق مشاہدہ ملتا ہے جو پڑھنے والے کو ایک نئے فکری سفر پر روانہ  کرتا ہے۔
جدید اور جدید عہدکے تقاضے، محبت، تنہائی، امید اور سپردگی جیسے موضوعات اور مضامین کا ذکر ان کی غزل میں غیرمعمولی مہارت کے ساتھ ملتا ہے۔ ان کے شعر ایک ظاہری سادگی کے با وجود اپنے اندر ایک فکری پیچیدگی رکھتے ہیں، جو پڑھنے سننے والوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی ان کا خاصہ ہے کہ ان کی شاعری میں نہ صرف ذاتی جذبات کی جھلک ملتی ہے بلکہ ایک اجتماعی شعور کی کارفرمائی بھی واضح نظر آتی ہے۔
سراج اجملی کا اسلوب روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔ وہ لفظوں کو اس طرح برتتے ہیں کہ ہر مصرع ایک نیا زاویہ پیش کرتا ہے اور زندگی کی مختلف پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ان کا کلام اردو ادب میں نہ صرف ایک اہم اضافہ ہے بلکہ یہ مستقبل کے ادبی رجحانات کے لیے ایک راہنما کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ ان کی شاعری زبان، احساس اور فکر کی اس جمالیات کو پیش کرتی ہے جو ادب کو اس کے اصل معنی میں بلند کرتی ہے۔

موضوعات

Recitation

بولیے