سہیل عظیم آبادی کے افسانے
الاؤ
گاؤں سے پورب ایک بڑا سا میدان ہے۔ کھیت کی سطح سے کچھ اونچا اور چورس۔ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے زمانے میں کسی راجہ کا یہاں پر راج محل تھا، اسی کی مٹی اور اینٹ سے زمین اونچی ہو گئی ہے۔ میدان کے پوربی کنارے پر پیپل اور برگد کے پیڑ ہیں اور اس کے بعد کھیت، اتر
دل کا روگ
چمپا نگر سینی ٹوریم۔ سسکتی ہوئی روحوں کی بستی۔ لرزتی ہوئی زندگیوں کی دنیا۔ مضطرب اور جھلملاتی ہوئی شمعوں کی انجمن۔ پرفضا مقام، شاداب درختوں کے جھنڈ میں لمبا چوڑا میدان، میدان میں سبز گھاس کا نظر فریب فرش۔ ان میں لال رنگ کی صاف سڑکیں۔ خوب صورت عمارتیں۔
دو مزدور
چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے پاس ہی چینی کا ایک بڑا سا کارخانہ تھا۔ اسٹیشن اور کارخانہ کے درمیان کچی سڑک پر پھوس کی ایک جھوپڑی کے دروازے پر ایک تختی لٹکی تھی جس پر لکھا تھا، ’’گرم چائے۔‘‘ جھوپڑی کے اندر مٹی کا ایک چبوترہ تھا، میز کرسی کے بدلے تاڑ کے پتّوں
اندھیرے اور اجالے میں
اندھیرے میں رات کے بارہ بج چکے تھے، بنگلہ سے باہر باغ میں کبھی کبھی الو کے بولنے کے آواز گونج اٹھتی تھی، ورنہ ہر طرف بھیانک سناٹا چھایا ہوا تھا، اس خوبصورت اور لمبے چوڑے مکان میں صرف تین آدمی تھے، دو نوکر اور ایک مالک۔ باغ کا مالی، دور ایک کونے پر
جوانی
بیاہ ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا مگر سریندر نے پربھا سے ایک لفظ بھی نہ کہا تھا۔ وہ باہر سے آتا اور چپ چاپ پربھا کے پاس بیٹھ جاتا۔ کبھی کوئی کتاب اٹھا لیتا، کبھی کوئی رسالہ اور وقت کاٹ دیتا۔ پھر باہر چلا جاتا، ماں باپ نے اس کا بیاہ کر دیا تھا، وہ ان کی خوشی،
شرابی
جب اس کی آنکھ کھلی تو سورج اونچا اٹھ چکا تھا اور اس کی تیز کرنیں اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں، اس نے اٹھتے ہی چاروں طرف نظر پھرا کر دیکھا، ہر طرف سناٹا تھا، اس نے سر میں ہلکا ہلکا درد محسوس کیا، ماتھے پر ہاتھ‘‘ پھیرتے ہی اس کا ہاتھ پسینے سے بھیگ گیا تھا،
چار آنے
باپ کچہری چلا گیا تو ریاض نے اطمینان کی سانس لی۔ جیب میں ہاتھ دے کر چونی ٹٹولی اور مطمئن ہو گیا، وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں بھانڈا نہ پھوٹ جائے، کہیں اس کی ماں خرچ کے لئے پیسے نہ مانگ بیٹھے، باپ اپنی جیب میں ہاتھ دے اور چونی غائب پائے، مگر اسے یہ سوچ کر تھوڑی
کھویا ہوا لال
ساون کی رات تھی، آسمان کالے کالے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا، تین دن سے موسلا دھار پانی برس رہا تھا۔ ایسا اندھیرا تھا کہ پاس کی چیزیں بھی دکھائی نہ پڑتی تھیں، کبھی کبھی بجلی چمک جاتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ دنیا میں پانی اور بادلوں کے علاوہ دوسری چیز بھی
بھوک
بھوک نے جب کروٹ لی تو آنتوں کے ساتھ ہی راؔمو کے دل و دماغ میں بھی ہلچل مچ گئی۔ وہ سوچنے لگا اب کیا کرنا چاہئے۔ بھوکے رہنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، ”فاقہ‘‘ کو چار شام تو ہو چکے، صبح ہوگی تو پانچواں ہوگا۔ تین دن سے کام ڈھونڈتا پھر رہا ہوں لیکن کام نہیں