Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Tahzeeb Hafi's Photo'

نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر، اپنے منفرد لب و لہجے کی شاعری کے لئے جانے جاتے ہیں

نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر، اپنے منفرد لب و لہجے کی شاعری کے لئے جانے جاتے ہیں

تہذیب حافی کے اشعار

24.7K
Favorite

باعتبار

میں کہ کاغذ کی ایک کشتی ہوں

پہلی بارش ہی آخری ہے مجھے

تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا

اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا

یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے

میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے

اپنی مستی میں بہتا دریا ہوں

میں کنارہ بھی ہوں بھنور بھی ہوں

داستاں ہوں میں اک طویل مگر

تو جو سن لے تو مختصر بھی ہوں

وہ جس کی چھاؤں میں پچیس سال گزرے ہیں

وہ پیڑ مجھ سے کوئی بات کیوں نہیں کرتا

بتا اے ابر مساوات کیوں نہیں کرتا

ہمارے گاؤں میں برسات کیوں نہیں کرتا

اک ترا ہجر دائمی ہے مجھے

ورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھے

تمام ناخدا ساحل سے دور ہو جائیں

سمندروں سے اکیلے میں بات کرنی ہے

میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر

یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے

پیڑ مجھے حسرت سے دیکھا کرتے تھے

میں جنگل میں پانی لایا کرتا تھا

میں جس کے ساتھ کئی دن گزار آیا ہوں

وہ میرے ساتھ بسر رات کیوں نہیں کرتا

تجھ کو پانے میں مسئلہ یہ ہے

تجھ کو کھونے کے وسوسے رہیں گے

میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں

سانس لینا بھی شاعری ہے مجھے

صحرا سے ہو کے باغ میں آیا ہوں سیر کو

ہاتھوں میں پھول ہیں مرے پاؤں میں ریت ہے

اس لیے روشنی میں ٹھنڈک ہے

کچھ چراغوں کو نم کیا گیا ہے

آسماں اور زمیں کی وسعت دیکھ

میں ادھر بھی ہوں اور ادھر بھی ہوں

نیند ایسی کہ رات کم پڑ جائے

خواب ایسا کہ منہ کھلا رہ جائے

مجھ پہ کتنے سانحے گزرے پر ان آنکھوں کو کیا

میرا دکھ یہ ہے کہ میرا ہم سفر روتا نہ تھا

میری نقلیں اتارنے لگا ہے

آئینے کا بتاؤ کیا کیا جائے

کیا مجھ سے بھی عزیز ہے تم کو دیے کی لو

پھر تو میرا مزار بنے اور دیا جلے

کوئی کمرے میں آگ تاپتا ہو

کوئی بارش میں بھیگتا رہ جائے

مرے ہاتھوں سے لگ کر پھول مٹی ہو رہے ہیں

مری آنکھوں سے دریا دیکھنا صحرا لگے گا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے