- کتاب فہرست 185969
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1923
طب884 تحریکات291 ناول4416 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1437
- دوہا64
- رزمیہ105
- شرح182
- گیت83
- غزل1118
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1547
- کہہ مکرنی6
- کلیات676
- ماہیہ19
- مجموعہ4879
- مرثیہ376
- مثنوی818
- مسدس57
- نعت538
- نظم1204
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ182
- قوالی19
- قطعہ60
- رباعی290
- مخمس17
- ریختی12
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی28
- ترجمہ73
- واسوخت26
ذکیہ مشہدی کے افسانے
ایک تھکی ہوئی عورت
یہ محبت کی شادی کی کہانی ہے۔ اجے وسوندھرا کے بھائی کا دوست ہے اور وسوندھرا اس سے محبت کرنے لگتی ہے، اجے بھی اس سے محبت کرتا ہے اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ ایک سال بعد ہی وسوندھرا کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے اجے سے شادی کر کے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔
پارسا بی بی کا بگھار
یہ ایک سماجی کہانی ہے جس میں ایک پارسا بیبی جب بھی اپنے گھر میں دال کا بگھار لگاتی تھی تو سارے محلے کو پتہ چل جاتا تھا۔ پارسا بیبی تھی تو بادشاہ کی بیٹی لیکن ایک منشی کے گھر بیاہی گئی تھی اور یہی اس گھر کے عورت کی کہانی ہے۔
عام سا ایک دن
یہ ایک مزاحیہ کہانی ہے۔ ماہ رمضان میں بھی روزہ نہ رکھنے کو لے کر بوا لڑکوں سے ہر وقت جھگڑتی رہتی ہے۔ روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے والوں کی حقیقت کی بھی عکاسی کی گئی ہے۔
ان کی عید
یہ افسانہ بابری انہدام کے دوران ہوئے فسادات میں اپنے عزیزوں اور املاک کو کھو دینے والے ایک مسلم خاندان کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے۔ ممبئی میں ان کا اپنا ایک اچھا سا گھر تھا اور چلتا ہوا کاروبار بھی۔ انہوں نے اپنے ایک دو عزیزوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا تھا۔ پھر شہر میں فساد بھڑک اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا۔ وہ واپس گاؤں لوٹ آئے، مایوس اور بدحال۔ گاؤں میں یہ ان کی دوسری عید تھی، لیکن دلوں میں پہلی عید سے کہیں زیادہ غم تھا۔
گڑیا
دس بارہ سال کی عمر کی ایک لڑکی کی کہانی جو اپنے گاؤں سے شہر آتی ہے۔ شہر میں ایک گھر میں اسے بچوں کی دیکھ بھال کی نوکری مل جاتی ہے۔ اس گھر میں نوکری کرتے ہوئے اس کے بچپن کے ادھورے خواہشات پھر سے پر پرزے نکالنے لگتے ہیں۔ ان خواہشات کو پورا کرنے کے لیے وہ جو قدم اٹھاتی ہے اس سے اس کی پوری زندگی ہی بدل جاتی ہے۔
بی بی کی نیاز
ایک بیوہ کو ایک نوزائیدہ کو دودھ پلانے کے کام پر رکھا جاتا ہے۔ بیوہ کا خود کا دودھ پیتا بچہ ہے لیکن وہ اپنے بچے کو ا پنادودھ نہ پلا کر اسے اوپر کا دودھ پلاتی ہے کہ مالکن کا بچہ بھوکا نہ رہے۔ دونوں بچے بڑے ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ملازمہ کا بیٹا ایب نارمل ہے۔ اپنے بچے کو لےکر اسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی کہانی کا مرکزی خیال ہے۔
ماں
ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہڈیوں کے آرپار ہوگیا۔ کڑاکے کا جاڑا پڑ رہا تھا، اس پر مہاوٹیں بھی برسنے لگیں۔ پتلی ساڑی کو شانوں کے گرد کس کر لپیٹے ہوئے منی کو خیال آیا کہ اوسارے میں ٹاپے کے نیچے اس کی چاروں مرغیاں جو دبک کر بیٹھی ہوں گی، ان پر ٹاپے کے سانکوں
بھیڑیے
’’مشترکہ خاندان میں ظلم اور استحصال کا شکار ہوتی ایک عورت کی کہانی۔ وہ ایک زمیندار برہمن خاندان کی بہو تھی۔ اس خاندان نے علاقے میں اپنا رسوخ بنائے رکھنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنا رکھے تھے۔ اسی کے زور پر اس کا امیدوار آسانی سے چناؤ جیت جاتا تھا۔ گھر چلانے کے لیے اپنے گونگے بہرے بیٹے کی ایک ہنرمند گھریلو خاتون سے شادی کرا دی تھی۔ بیٹا شہر میں رہتا تھا اور بہو گاؤں میں۔ بہو بار بار شہر جانے کی ضد کرتی ، لیکن اسے جانے نہیں دیا جاتا۔ پھر ایک روز اسے پتہ چلا کہ اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے۔ یہ سنتے ہی وہ گھر چھوڑکر جانے کی پوری تیاری کر لیتی ہے، مگر تبھی اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ شہر جانے کے لیےجس راستے سے بھی گزرے گی، ہر اس راستے پر اسے ایک بھیڑیا بیٹھا ملے گا۔‘‘
چرایا ہوا سکھ
ایک ایسی خاتون کی کہانی جس کا شوہر ہمیشہ بزنس ٹور پر شہر سے باہر رہتا ہے۔ خاتون سارا دن گھر میں تنہا پڑی رہتی ہے۔ سوسائٹی میں اس کی ملاقات ایک ایسے مرد سے ہوتی ہے جس سے وہ اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں تھوڑا سا سکھ چرا لیتی ہے۔
ہری بول
کہانی بدلتے وقت کے ساتھ خونی رشتوں میں ہو رہی تبدیلی اور خود غرضی کے رویے کو بیان کرتی ہے۔ وہ ایک افسر کی بیوی تھی اور ایک عالیشان گھر میں رہتی تھی۔ شوہر کی موت ہو چکی تھی اور بچے اپنی زندگی میں مست تھے۔ بیٹا جرمنی میں رہتا تھا اور بیٹی سسرال کی ہو کر رہ گئی تھی۔ انہیں اپنی بوڑھی ماں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مگر جب انہیں پیسوں کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے اپنا آبائی گھر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا اور ماں کو نانی کے گھر بھیج دیا، جہاں آزادی کے اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی نہ تو بجلی پہنچی تھی اور نہ ہی بیت الخلا تھا۔
نیا سال مبارک ہو
’’نئے سال کے موقع پر ہونے والی ایک پارٹی کی پس منظر پر مبنی کہانی، کالج کے زمانہ کے چار دوستوں کی داستان بیان کرتی ہے۔ ثروت گھر سے بیوٹی پارلر کے لیے نکلی تھی۔ راستے میں اسے کالج کی ایک دوست ارملا مل جاتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ ایک ریسٹورینٹ میں جا بیٹھتی ہے، جہاں وہ دونوں گزری زندگی کے واقعات کو یاد کرتی ہیں۔ اسی دوران ثروت کو آنند یاد آتا ہے، جس سے ایک زمانہ میں محبت تھی۔ وہ ایسی محبت تھی، جو پوری ہونے کے بعد بھی ادھوری رہ گئی تھی۔‘‘
شکستہ پروں کی اڑان
’’یہ ایک ایسی ادھیڑ عمر بیوہ عورت کی کہانی ہےجو اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہتی ہے لیکن اس کے اندر کی نسوانی خواہشیں اور آرزوئیں اب بھی جوان ہیں۔ اس عمر میں اسے بیٹی کی شادی کی فکر ہونی چاہیئے تھی، لیکن وہ اپنی شادی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس کی اس خواہش کو تب مزید پنکھ لگ گئے جب ایک خوبصورت نوجوان ان کے پڑوس میں آ کر رہنے لگا۔ خاتون نے اس نوجوان سے اپنے مراسم بڑھائے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے خواب رنگین ہونے لگے۔ مگر یہ رنگ دیرپا ثابت نہیں ہوئے اور ایک ہی جھٹکے میں اڑ گئے، جب اسے پتہ چلا کہ وہ نوجوان اس سے نہیں، بلکہ اس کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔‘‘
تھکے پاؤں
’’یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے، جسکی شادی بوجوہ وقت سے نہیں ہو سکی اور اب اس کی شادی کی عمر نکل چکی ہے۔ اب کسی سماجی تقریب میں جاتے ہوئے اسے جھجک محسوس ہوتی ہے۔ شادیوں، پارٹیوں یا پھر ایسی ہی کسی تقریب میں شادی شدہ خواتین کی گفتگو اور دوسری گہما گہمی سے وہ اوب چکی ہے۔ اسی درمیان اس کی زندگی میں ایک ایسا شخص داخل ہوتا ہے، جس کی بیوی کی موت ہو چکی ہے اور وہ دو بیٹیوں کا باپ ہے۔ وہ شخص اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ پہلے تو وہ اسے ٹالتی رہتی ہے۔ ایک روز اپنی ایک سہیلی سے ملاقات کے بعد اس نے اس شخص کی شادی کی تجویز کو قبول کر لیا۔‘‘
انگوٹھی
یہ کہانی ایک پنڈت کو مغل سردار کی تیمارداری کے عوض بطور انعام ملی ایک انگوٹھی کے گرد گھومتی ہے۔ وہ انگوٹھی کئی اہم واقعات کی گواہ بنتی برہمن خاندان میں نسل در نسل گزرتی ہوئی اس خاندان کےایک داماد کے ہاتھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ انگوٹھی کسی طرح ایک ڈاکو کے ہاتھ لگ جاتی ہے اور پھر اسے ایک پولس والا اڑا لے جاتا ہے۔ پولس والے کے ہاتھ سے نکل کر انگوٹھی منسٹر کے پی۔ اے کے ہاتھ میں جا پہنچتی ہے اور پی۔ اے سے انگوٹھی منسٹر لے لیتا ہے۔ اب وہ انگوٹھی منسٹر کے انگلیوں کی رونق تھی، جو اس بات کی ضمانت تھی کہ جس کسی کے پاس وہ انگوٹھی ہوگی، وہ ہر پریشانیوں سے دور رہےگا۔
اجن ماموں کا بیٹھکہ
پورے گاؤں میں اجن ماموں کی بیٹھک ایسی جگہ ہے جہاں ہمیشہ ہر طرح کی خبریں پہنچتی رہتی ہیں۔ ایک دن اجن ماموں کو خبر ملتی ہے کہ حویلی میں ہری پرساد بابو کا قتل ہو گیا ہے۔ یہ قتل کچھ اس طرح سے ہوتا ہے کہ اجن ماموں کی بیٹھک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔
ڈے کیئر
یہ افسانہ ایک کینسر انسٹی ٹیوٹ کے ڈے کیئر یونٹ کی ایک دن کی گہما گہمی پر مبنی ہے۔ دو عورتیں کرسی پر بیٹھی ایک دوسرے سے وہاں آنے کی وجہ پوچھتی ہیں۔ ان میں سے ایک ہندو اور دوسری مسلمان ہے۔ ہندو عورت اپنے بیٹے کو لے کر آئی ہے، جسے بلڈ کینسر ہے۔ مسلمان عورت اپنے شوہر سے ملنے آئی ہے۔ وہ اپنی بیماریوں کے بارے میں باتیں کرتی ہیں، جن کے لیے مذہبی شناخت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ ہندو عورت شدھ شاکاہاری ہے، لیکن ڈاکٹر کے کہنے سے وہ اپنے بیٹے کو چکن کھلاتی ہے۔ تبھی مائک پر کسی کا نام پکارا جاتا ہے اور دونوں عورتیں پکارے جا رہے نام کو ٹھیک سے سننے کے لیے اس طرف چل دیتی ہیں۔
کاغذ کا رشتہ
ایک ایسے شخص کی کہانی، جس نے کبھی بھی اپنی بیوی کی قدر نہیں کی۔ شادی کے بعد سے ہی وہ اس سے بیزار رہتا۔ ہر وقت مار پیٹ کرتا رہتا۔ گھر سےکئی کئی دنوں تک غائب ہو جاتا ۔ پھر ایک روز وہ ایک چمار کی لڑکی کو لیکر بھاگ گیا اور اس کی بیوی کو اس کے بھائی اپنے گھر لے آئے۔ انہوں نے اپنی بہن پر اس سے طلاق لینے کے لیے کہا لیکن وہ اس کے لیے راضی نہیں ہوئی۔ ایک عرصے بعد شوہر سسرال آیا۔، بیوی کو لینے نہیں، پیسے مانگنے کے لیے۔ اس کے سالوں کو جب اس کے آنے کے مقصد کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے اسے بہت مارا۔ مار پیٹ کے بعد شوہر واپس جانے لگا تو اس کی بیوی نے پردے کی آڑ سے اسے کچھ روپیے تھما دیے۔
پائل
آئی اے ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کنول شرما برگیڈیر عثمانی انکل کے ایک دوست کے ہاں گھومنے جاتا ہے۔ وہاں اسے پتہ چلتا ہے کہ ان کی بیٹی کے رشتے کے لیے اس کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔ خاندان بہت ہی مہذب اور تعلیم یافتہ ہے۔ لڑکی بھی خوبصورت اور باسلیقہ ہے، اس کے باوجود وہ شادی سے انکار کر دیتا ہے۔
بجنس
مزدور طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جس کے لیے پیسہ کمانا ہی اولین مقصد ہے۔ گرمیوں میں وہ مشنری اسکول کے سامنے ریہڑی لگایا کرتا تھا اور سردیوں میں جب اسکول کی چھٹی ہوتی تو سبزی مارکیٹ میں بھنے چنے اور نمکین بیچا کرتا تھا۔ گھر میں جب اس کی شادی کی بات چلی تو مزید آمدنی کی اسے فکر ہوئی۔ اسی دوران شہر میں انتخابات ہو رہے تھے۔ ایک دوست کے مشورے پر چناؤ کے دوران اس نے پٹاخوں کی ریہڑی لگا لی۔ انتخابات کےنتیجہ والے دن وہ دو اہم پارٹیوں کے آفس کے پاس پٹاخوں کی ریہڑی لیے کھڑا تھا اور اپنا کاروبار کر رہا تھا۔ اسے کسی پارٹی کی ہار جیت سے کوئی مطلب نہیں تھا۔
شناخت
ایک ایسے برہمن زمیندار خاندان کی کہانی، جس نے اپنے ایک بچے کی پرورش کی ذمہ داری ایک مسلم خدمت گزار بابو سائیں کو سونپ دی تھی۔ حالانکہ برہمن خاندان نے اپنے اس بچے کی پرورش اسی طرح کر رہے تھے، جیسے دوسرے بچوں کی پرورش کی تھی۔ لیکن اس بچے کے جسم میں جیسے غذا لگتی ہی نہ تھی۔ سارا دن کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کے باوجود وہ ایک دم سوکھے کانٹے کی طرح دکھتا تھا۔ بابو سائیں کی سرپرستی میں آنے کے بعد اس میں کچھ تبدیلی آنے لگی تھی۔ بابو سائیں اسے گوشت، مرغا، یخنی سب کچھ کھلاتا۔ اپنے ساتھ تکیے پر بھی لے جاتا۔ بچے کی ضد پر بابو سائیں نے اسے اردو بھی سیکھا دی تھی۔ جب برہمن خاندان والوں کو اس بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے بچےکو واپس بلا لیا کہ بابو سائیں تو اسے مسلمان ہی بنا دے گا۔
join rekhta family!
-
ادب اطفال1923
-