آؤ کٹھل کھائیں
بنگال کا ایک خاص پھل کٹھل ہے۔ یہ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ کوئی پھل تو کیا سبزی کی کوئی چیز بھی اس کا مقابلہ نہیں کرتی۔ ایک کٹھل کم سے کم دس بارہ سیر کا ہوتا ہے۔ کھانے میں بے حد میٹھا اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔ لیکن اس کا شیرہ بہت لیس دار ہوتا ہے۔ عام طور پر اسے کھانے کے لئے ایک خاص ترکیب کرنی پڑتی ہے۔ ہاتھوں اور مونہہ اور ہونٹوں پر ناریل کا تیل مل لیا جاتا ہے اس سے ہاتھ اور مونہہ چپکنے سے بچ جاتے ہیں۔ ورنہ اس کے لیس سے نجاب ملنا مشکل ہوتا ہے۔
بنگلہ زبان کی ایک دلچسپ کہانی اس پھل کے بارے میں مشہور ہے۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ ایک پٹھان بھائی اپنا کابلی میوہ بیچتے بیچتے بنگال کے کسی شہر میں جا نکلے۔ وہ بازار سے گزر رہے تھے کہ راستے میں انہیں ایک شخص کٹھل بیچتا ملا۔ خان صاحب نے جو ایسی بھاری بھرکم چیز دیکھی تو پوچھا کہ اس کا کیا کرتے ہیں؟ انہیں بتایا گیا، ’’یہ ایک مزے دار پھل ہے۔ اسے کھاتے ہیں۔‘‘ قیمت پوچھی تو معلوم ہوا۔ ’’پانچ روپئے۔‘‘
خان صاحب بہت خوش ہوئے کہ ایسی عمدہ اور بھاری کھانےکی چیز پانچ روپئے کی مل رہی ہے۔ پیٹ بھر کر مزے سے کھائیں گے۔ پھر بھی بچ رہے گی۔ انہوں نے جلدی سے پانچ روپئے دیئے اور کٹھل اٹھا کر کندھے پر رکھ لیا۔ چلتے چلتے وہ سرک کے کنارے ایک جگہ بیٹھ گئے اور اپنا چمکدار لمبا، تیز دھار چاقو نکال کر کٹھل کے ٹکڑے کر کے کھانے لگے۔ وہ تو تھا ہی میٹھا۔ خان صاحب بہت خوش ہوئے۔ جی بھر کے کھایا اور جو بچ رہا اسے رومال میں باندھ کر چلنے کا ارادہ کیا۔ مگر کٹھل کھانے کی ترکیب تو خان صاحب کو کسی نے بتائی نہ تھی۔ ان کے ہاتھ مونہہ اور اڑھی چپک کر رہ گئی۔ انہوں نے ایک نل پر جاکر اپنے ہاتھ اور مونہہ کو دھویا۔ لیکن کٹھل کے لیس کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ پانی سے اور زیادہ چپکتا ہے۔ خان صاحب جتنا ہاتھوں اور مونہہ کو دھوتے تھے اتنا ہی اس کے لیس میں چپکتے تھے۔ دیر تک رگڑ رگڑ کر دھونے کے باوجود لیس سے چھٹکارا نہیں ہوا۔
اب تو خان صاحب سخت پریشان ہوئے۔ راستے سے جو بھی راہ گیر گزرا اس سے پوچھنے لگے۔ ’’بھائی۔‘‘ بتاؤ میں اپنا مونہہ اور ہاتھ کیسے صاف کروں۔ کسی نے کہا۔ ’’صابن سے دھولو۔ کسی نے کچھ، کسی نے کچھ۔ دراصل ہر ایک کو خان صاحب کا یہ حال یہ دیکھ کر دل لگی سوجھنے لگی تھی اور جس جس نے جو ترکیب بتائی وہ ایسی تھی جس سے لیس صاف ہونے کی بجائے ہاتھ اور مونہہ زیادہ ہی چپکتے تھے۔
ہوتے ہوتے خان صاحب بےچارے کا یہ حال ہوا ہونٹ چپک کر جیسے سل ہو گئے۔ بات کرنی دشوار ہو گیا۔
اور مونچھوں کے بال ایسے چپکے تھے کہ اکڑ کر رہ گئے اور چہرہ جکڑنے سے بے چارے کو سخت تکلیف ہونے لگی۔
خان صاحب اسی حالت میں لوگوں کو اپنا چہرہ دکھاتے اور اشارے سے پوچھتے پھرتے تھے کہ اس مصیبت سے کیسے چھٹکارا پائیں۔
آخر ایک شخص نے ان کو بتایا کہ اس کا آسان علاج یہ ہے کہ آپ اپنی داڑھی منڈوائیں۔۔۔ خان صاحب نے ایک نائی کے پاس جاکر داڑھی مونچھیں صاف کرائیں اور اس نائی نے ناریل کے تیل سے ان کے ہاتھوں اور مونہہ کو صاف بھی کر دیا۔ پھر اس نے خان صاحب کو کٹھل کھانے کی ترکیب بھی سمجھا دی۔ وہ خوش خوش وہاں سے چل دیئے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے اپنا بچا ہوا کٹھل کھا کر پیسے وصول ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا۔
اس کے بعد جب بھی خان صاحب کو ان کے علاقے کا کوئی شخص ملتا اور وہ اس کی داڑھی منڈی ہوئی دیکھتے تو فوراً اسے گلے لگا کر ہنستے ہوئے کہتے۔ ’’ہم سمجھ گئے۔۔۔ تم نے کٹھل کھایا ہے۔‘‘
وہ شخص حیران ہو کر ان سے کٹھل کا ماجرا دریافت کرتا۔ پھر وہ اسے اپنی ساری کہانی سناتے اور بازار لے جاکر کٹھل خریدوا کر نائی کی بتائی ہوئی ترکیب سے کٹھل کھا کر خوش ہوتے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.