aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
بہت دنوں کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک مچھیرا رہتا تھا۔ اس کی ایک بیوی تھی اور ایک لڑکا۔ بیچارہ تھا بہت غریب! لیکن محنت بھی خوب کرتا تھا۔ صبح ہوتے ہی وہ اپنا جال لے کر چھوٹی سی کشتی میں بیٹھ جاتا اور سمندر کی چنچل موجوں سے کھیلتا ہوا دور بہت دور مچھلیاں
ایک دن ایک بوڑھی عورت اپنے کھیت میں سے بند گوبھی توڑنے جا رہی تھی۔ راستے میں ایک غار پڑ تھا تھا جس میں بارہ آدمی رہتے تھے۔ انہوں نے بڑھیا کو بلاکر کہا ’’بی اماں، یہ بتاؤ سب سے اچھا کون سا مہینہ ہے؟‘‘ ’’سب ہی اچھے مہینے ہیں بیٹا۔‘‘ بڑھیا نے کہا۔ دیکھو
ایک دن اکبر بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک ہاتھی کے بے قابو ہو کر چھوٹ جانے سے ’’ہٹو بچو‘‘ کا غل ہونے لگا۔ بادشاہ نے کھڑکی کی طرف منہ کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان نے دوڑتے ہوئے ہاتھی کی دم پکڑ کر اسے فوراً روک لیا ہے۔ بادشاہ نے بیر بل کو اس
بہت پرانے زمانے کی بات ہے۔ ایک راجا تھا جس کی حکومت بہت بڑے علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی رعایا اس سے بہت خوش تھی کیونکہ وہ بہادر، نیک دل اور انصاف پسند راجا تھا۔ اس کے ملک میں دولت کی فراوانی تھی اور ہر طرف امن و امان تھا۔ راجا اب بوڑھا ہو چکا تھا
ایک تھا کچھوا۔ اکثر سمندر سے نکل کر ریت پر بیٹھ جاتا اور سوچنے لگتا دنیا بھر کی باتیں، سمندر کے تمام کچھوے اسے اپنا گرو مانتے تھے اس لیے کہ وہ ہمیشہ اچھی اور مناسب مشورے دیا کرتا تھا۔ مثلاً ریت پر انڈے دینے کے لیے کون سی جگہ مناسب ہو گی، عموماً دشمن
شہزادہ ارجمند اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اپنی بہن شہزادی انجمن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ چند ہفتے پہلے اس کی شادی پڑوسی ملک کے ایک شہزادے سے ہوگئی تھی۔ شادی کے بعد وہ ایک مرتبہ بھی اپنے گھر نہیں آئی تھی۔ ملکہ نے قاصدوں کے ذریعے اسے پیغام بھی
کسی نے ایک بڑے تاریخ دان سے پوچھا۔ ’’آپ کی عمر کتنی ہوگی؟‘‘ تاریخ دان نے کہا۔ ’’یہی کوئی سات آٹھ ہزار سال کی۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’صورت سے تو آپ چالیس برس کے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ تاریخ دان نے جواب دیا۔ آپ کا خیال بالکل صحیح ہے کہ مجھے اس دنیا میں آئے ہوئے
بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کسی ملک میں ایک گاؤں تھا جس میں دو بھائی رہا کرتے تھے۔ ایک بھائی کا نام تھا جمال اور دوسرے بھائی کا نام تھا اقبال۔ جمال جو کہ اقبال سے بڑا تھا، ایک لالچی، خودغرض اور بےایمان آدمی تھا جبکہ اس کا چھوٹا بھائی اقبال نہایت شریف اور
آبادی سےبہت دور ایک جنگل تھا جہاں تمام جانور بہت پیار محبت اور سکون سے رہتے تھے۔ اسی جنگل میں چار بہت گہرے دوست ہرن، کچھوا، کوا اور چوہا بھی رہتے تھے جنہیں کوئی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ہر شام اکٹھے ہوتے اور سارا دن ہونے والے واقعات
پٹنہ کے قریب ایک جنگل تھا۔ اس کا نام تھا پیلی کانن۔ بہت دن ہوئے پیلی کانن میں ایک طرف ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا گویا کبھی اس عمارت کی شان بھی نرالی ہوگی۔ ایک روز دوپہر کے وقت چند بچے عمارت کے قریب ایک ٹیلے پر راجہ کا
’’اب تک اس مکان میں جھاڑو نہیں دی گئی؟‘‘ شمیم نے رعب جمایا۔ ’’تو بڑی کام چور ہوگئی ہے شہناز‘‘ اور شہناز اپنے پھٹے ہوئے دوپٹے سے گھروندے کو اس طرح تندہی سے صاف کرنے لگی جیسے واقعی وہ اس گھر کی ماما ہو اور شمیم اس کی مالکن۔ لوگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ بچوں
بڑے بچوں کے لئے
ننھی شیلا ایک دن اپنی گڑیوں کے لئے چائے بنا رہی تھی۔ کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شیلا نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہے۔ لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچوں کو گود میں لئے کھڑی ہے۔ اس عورت
کسی جنگل میں ایک لومڑی غذا کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی اچانک وہ ایک درخت کے قریب پہنچی جس کے ساتھ ایک ڈھول بندھا ہوا لٹک رہا تھا۔ جب جب ہوا چلتی تھی درخت کی ایک لمبی شاخ ہل کر اس ڈھول پر پڑتی تھی اور اس سے ایک زور دار آواز نکلتی تھی۔ اتفاق سے
گھر کے کباڑ خانے میں بلیوں کی کانفرنس ہو رہی تھی۔ تمام بلیاں اس طرح ایک گول دائرے میں بیٹھی تھیں جیسے کسی گول میز کانفرنس میں شرکت کر رہی ہوں۔ بیٹھنے سے پہلے ان سب نے اپنی اپنی دم سے اپنی جگہ بھی صاف کی تھی۔ لکڑی کی ایک ٹوٹی کرسی پر اس وقت ایک بوڑھی
نیروز والوجیکل پارک میں سوزی نامی مادہ چمپانیزی جس کی سر پرستی کبھی سہارا گروپ کے صدرنشین جناب سبراتا رائے کے تحت تھی۔ وہ نہایت ہی شاہانہ طرز کی زندگی گزار رہی ہے۔ یہ چمپانزی جو اپنے نازونخروں، غصہ اور برہمی کے لیے پہچانی جاتی ہے۔ چند برس پہلے اپنے ساتھی
شیخ چاند بیو پاری سون پور میں رہتا تھا۔ اس کی ایک دکان تھی۔ دکان کس قسم کی تھی یہ بتانا ذرا مشکل ہے کیونکہ اس ایک دکان میں کئی دکانیں موجود تھیں ۔ گاؤں کے لوگ کہا کرتے تھے کہ شیخ چاند کی دکان میں صرف شیرنی کا دودھ ہی نہیں ملتا، اس کے علاوہ ہر چیز مل
جب میں خان صاحب کے گھر پہنچا تو وہاں حسب معمول مجمع لگا ہوا تھا۔ خان صاحب بہت خوش مزاج، مہمان نواز اور یا باش آدمی تھے اور ہمارے ابا کے دوست تھے۔ ان کے گھر روزانہ شام کو بے فکروں کی محفل جمتی، خوش گپیاں ہوتیں بلکہ بعض اوقات تو صرف گپیں ہی ہوتیں۔ خاص
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کے نظم و نسق اور نیک دلی کی وجہ سے اس کی رعایا بہت چین اور سکون سے اپنی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس ملک کے لوگوں کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر وقت اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے
جنگل کے کھلے، ہرے بھرے میدان میں خرگوش کی بیٹھک بلائی گئی تھی۔ خرگوش آتے اور اطمینان سے ایک طرف بیٹھ جاتے۔ ٹھیک ساڑھے چھ بجے جنگل کے لگ بھگ سارے خرگوش وہاں جمع ہوگئے تھے۔ پھرخرگوشوں کے سردار ڈِم ڈِم نے کھڑے ہوکر اپنی تقریر اس طرح شروع کی: ’’محترم
لاکھوں برس گزرے۔ آسمان پر شمال کی طرف سفید بادلوں کے پہاڑ کے ایک بڑے غار میں ایک بہت بڑا ریچھ رہا کرتا تھا۔ یہ ریچھ دن بھر پڑا سوتا رہتا اور شام کے وقت اٹھ کر ستاروں کو چھیڑتا اور ان سے شرارتیں کیا کرتا تھا۔ اس کی بدتمیزیوں اور شرارتوں سے آسمان پر
سمندر کے کنارے منی مچھلی، پیٹو کیکڑا اور چھوٹو گھونگا رہتے تھے۔ ان تینوں میں گہری دوستی تھی۔ ان کے درمیان اکثر نوک جھونک ہوتی اور ایک دوسرے کی ٹانگ بھی کھینچتے تھے۔ لیکن کوئی کسی بات کا برا نہیں مانتا تھا۔ گھونگا تھا تو چھوٹا سا لیکن باتیں بڑے مزے مزے
اس کا نام کوکی کاکروچ تھا۔ وہ لال بیگوں کی فیملی میں سب سے چھوٹا کاکروچ تھا۔ اس گندے گھر میں سارے لال بیگ دن بھر گھر و صحن کے گندے حصوں اور غسل خانے اور باورچی خانے کی نالیوں میں چھپ کر رہتے تھے۔ جب گھر کے لوگ ان جگہوں کی صفائی نہیں کرتے، کچرا پھیلاتے
رات کا وقت تھا۔ اندھیرا پھیل چکا تھا کہ حویلی کے دروازے پر کسی نے زور زور سے دستک دی۔ ایک بزرگ نے دروازہ کھولا تو باہر ایک نوجوان بے ہوش پڑا تھا۔ بزرگ نے اسے اٹھایا اور نرم گدگدے بستر پر لاکر لٹا دیا۔ نوجوان کو ہوش آیا تو اس کے سامنے سفید داڑھی والے
ایک زمیندار کسی راجے کے یہاں نذرانے کو بارہ پیٹھے لے گیا۔ وہ شہر کے دروازے پر پہنچا تو ایک بیٹھا چنگی والے نے رکھوا لیا کہ ہمارا حق دیتے جاؤ۔ دوسرا پولیس کے سپاہی نے ہتھیا لیا جو دروازے پر پہرہ دے رہا تھا۔ تیسرا سارجنٹ نے اڑا لیا اور چوتھا کوتوال صاحب
شہزادی نگینہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی اس لیے بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا تھا۔ وہ نہایت حسین و جمیل اور عقلمند تھی۔ جب وہ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو اس کی شادی کی فکر ہوئی۔ اسی دوران اس کے دو شہزادوں کے رشتے بھی آگئے۔ بادشاہ کو فیصلہ کرنا دشوار
شاکر اور انور گہرے دوست تھے۔ دونوں تیسری جماعت میں پڑھتے تھے۔ ساتھ اسکول جاتے اور ساتھ واپس آتے۔ ساتھ ہی اسکول کا کام کرتے اور رات کے وقت گلی کے بچوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے۔ شاکر کے والد شیخ صاحب اور انور کے والد ملک صاحب دونوں ان کی دوستی سے بہت
ایک تھے گڈو میاں، بڑے ہی نٹ کھٹ، شریر اور باتونی، محلے کے سب ہی لوگ ان سے پیار کرتے تھے۔ وہ سب کے راج دلارے تھے۔ جو بھی انہیں دیکھتا بےاختیار چاہنے لگتا، شرارتی پن کے باوجود گڈو میاں میں بدتمیزی نام کو نہ تھی۔ وہ ہمیشہ صاف ستھرے کپڑے پہنتے، اپنی چیزوں
آج ننھی کنول کوز کام ہو گیا تھا۔ بات یہ ہوئی کہ سردی بہت تھی اور کنول کو پانی میں کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ گھرمیں امی اور نرسری میں آنٹی بہت منع کرتیں، بہت روکتیں آنٹی نرسری میں سمجھاتیں، مگر ربر کے غباروں میں پانی بھر کر اس کا فوارہ بنانا، اسے دوسروں
ایک دن صبح ہمارے آنگن میں ایک واسودیو آیا۔ سر پر مور کے پروں والی ٹوپی، بدن پر ایک لمبا گھیر دار جبہ، کندھے پر رنگ برنگا پھٹا ہوا انگوچھا اور پیر میں ایک پھٹا ہوا جوتا۔ ایسا اس کا ٹھاٹھ تھا۔ ایک ہاتھ سے کرتال بجاتے ہوئے وہ گاتا رہا۔ ’’پنڈھری کے
انڈے سے نکلا ننھا لاروا جب درخت کے ایک سبز پتے پر گہری نیند سے جاگا تو اس کے جسم پر صرف ہلکی سی سبز جیکٹ تھی۔ لیکن اس چھ ننھے ننھے نازک پیروں میں جوتے نہیں تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ بغیر جوتوں کے اس جنگل میں چلنا تو بہت مشکل ہے۔اتنے میں قریب ہی ایک کالے
راجاوکرمادتیہ بھارت کے مشہور راجا تھے۔ کہا جاتا ہے کہ راجا کو بھگوان نے وہ طاقت دی تھی کہ وہ چھپی ہوئی چیزوں کا پتہ چلا لیتے تھے۔ ایک دن انہوں نے اپنے دربار میں کہا کہ وہ جنگل کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ا کی حکومت میں جانوروں اور
’’عارف، سلیم چلو فوراً سو جاؤ۔‘‘ امی کی آواز عین اس وقت آتی تھی جب وہ دوستوں کے حلقے میں جیسے قوالی گاتے تھے۔۔۔ یا پھر صبح بڑے مزے میں آئس کریم کھانے کے خواب دیکھ رہے ہیں کہ آپا جھنجھوڑ ڈالتیں۔ ’’جلدی اٹھو۔ اسکول کا وقت ہو گیا۔۔۔‘‘ دونوں کی مصیبت
آج کے زمانے میں شاید ہی کوئی بچہ ایسا ہو جس نے ریل گاڑی سے سفر نہ کیا ہو۔ لیکن یہ بات بہت کم بچوں کو معلوم ہوگی کہ سب سے پہلے انجن کس نے ایجاد کیا اور کس طرح؟ آؤ ہم تم کو بتائیں۔ سب سے پہلا انجن جیمس واٹ نامی ایک آدمی نے بنایا تھا۔ وہ ایک لوہار
کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے۔ میری اور نیلو کی دوستی سب کے لئے قابل حیرت تھی۔ بات تھی بھی حیرت کی۔ وہ لمبی سی چمکتی ہوئی کار میں اسکول آتی تھی۔ وہ روز ایک نئی فراک پہن کر آتی تھی۔ اس کے جوتے ہمیشہ فراکوں سے میل کھاتے اس کی چوریاں، اس کے رنگ برنگی ربن،
عارف اور طارق دو نوں بھائی تھے۔ ایک روز جب ان کے ماموں سعودی عرب سے پاکستان آئے تو ان کے ہی گھر ٹہرے۔ وہ اپنے دونوں بھانجوں کے لیے جہاں کپڑے اور جوتے وغیرہ لائے، وہیں ان کے لیے بہت سے کھلونے بھی لے کر آئے تھے۔ ان کھلونوں میں ایک پولیس ٹوائے سیٹ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہزادہ تھا جو صرف کسی شہزادی ہی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن وہ ایک اصلی شہزادی ہونی چاہئے تھی۔ اس نے پوری دنیا کا سفر کیا تاکہ ایسی شہزادی کو تلاش کر سکے۔ لیکن وہ جو چاہتا تھا وہ اسے کسی بھی جگہ نہ ملی۔ شہزادیاں تو بہت ساری
میرے بچے کی پانچویں سالگرہ تھی۔ ماں نے اسے نئے کپڑے پہنائے۔ دوستوں نے تحفے پیش کیے۔ دوسرے گھروں سے اور بھی بچے آئے تھے۔ میرا بچہ دن بھر ان سے کھیلتا رہا۔ آم کھا کر اپنے کپڑے میلا کرتا رہا۔ جامن اور چیکو کے درختوں پر چڑھنے کی کوشش کرتا رہا اور جب اس
دو بہنیں تھیں۔ ایک کا نام کو اور دوسری کا نام سو۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑی محبت تھی۔ سارا وقت دونوں مل کر کھیلتی پھرتیں اور ناچتیں۔ بیساکھ کے دن تھے۔ آم کے درخت پر بور لگ گئے تھے۔ سو نےکہا ’’کو چلو ہم بور لانے کے لئے جائیں۔‘‘ کو نے کہا ’’ٹھیک
ایک تھی چوہیا اور ایک تھی چڑیا۔ دونوں کا آپس میں بڑا اخلاص پیار تھا اور بہنیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک روز صبح کو چڑیا نے کہا: ’’کہ چلو بہن چوہیا ذرا ہوا کھا آئیں‘‘ چوہیا نے کہا چلو دونوں سہیلیاں مل کر چلیں ہوا کھانے۔ چڑیا تو ارتی اڑتی جاتی تھی اور چوہیا پھدک
بارش کی پہلی پھوار کے ساتھ ہی سارا ماحول بدل گیا تھا۔ کل سے اسکول کھل جائیں گے اس احساس سے گھر کے تمام بچوں میں ایک عجیب سی امنگ پیدا کر دی تھی۔ بازاروں میں ہر طرف خریداروں کی چہل پہل تھی جن میں اکثر بچے اور ان کے والدین تھے۔ سب کتابوں اور یونیفارم کی
ہمارے چچاجان اچھا کھاتے ہیں، اچھا پہنتے ہیں۔ یوں دیکھنے میں انہیں کوئی پریشانی یا کسی قسم کی تکلیف نہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ رنجیدہ اور پریشان رہتے ہیں۔ ہم نے تو کبھی انہیں خوش نہیں دیکھا۔ جب دیکھو ان کامنہ پھولا ہوا ہے۔ بھویں تنی ہوئی ہیں۔ چچا
سہیل جب آٹھویں جماعت پاس کرکے نویں جماعت میں گیا تو اس کے امی ابّا بہت خوش ہوئے۔ سہیل کے دوسرے رشتے دار تو بہت دور دور رہتے تھے مگر دو چچا اسی شہر میں تھے اور ایک ساتھ رہتے تھے۔ بڑے چچا شادی شدہ تھے۔ چھوٹے چچا کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ سہیل کے ابّا
اٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریب سے بات تک کرنا برا جانتا تھا۔ اس لیے اکثر لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک دن یہ شکار میں کسی جانور کے پیچھے گھوڑا ڈالے اتنی دور نکل گیا کہ نوکر چاکر سب بچھڑ گئے اور بادشاہ اکیلا رہ گیا۔ اتنے میں ایک
احمد اور دانش دو بھائی تھے۔ احمد کی عمر تقریباً چودہ سال تھی اور دانش بارہ سال کا تھا۔ وہ دونوں اپنے کمرے میں تھے۔ یہ کمرہ ان کا مشترکہ کمرہ تھا۔ اس میں بے ترتیبی صاف نظر آ رہی تھی۔ کتابیں اور کپڑے ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔ دانش کے جوتے فرش پر ادھر ادھر
کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا- اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی جس پر وہ گندم اور دوسری فصلیں اگاتا تھا- وہ دن بھر کھیتوں میں کام کرتا تھا اور اس کی بیوی گھر کے کاموں کے علاوہ کھیتوں میں بھی مختلف کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتی تھی- ان کے دو بچے تھے- ایک
ایک تھی چوہیا اور ایک تھا چوہا، دونوں کی ہوئی شادی چوہیا سسرال میں آئی تو اس نے ساس کو سلام نہ کیا بڑھیا ساس نے اپنے بیٹے چوہے سے کہا کہ اس موئی کو خوب مار یہ بڑی بدتمیز ہے، اپنے بڑوں کو سلام بی نہیں کرتی، چوہے نے اپنی اماں کا کہنا مانا اور لے کر جوتی
بہت دن ہوئے جاپان میں ایک بڈھا اور ایک بڑھیا رہتے تھے ان کے گھر ایک چڑا روز آتا اور دانا دنکا چن کر اڑ جاتا۔ دونوں میاں بیوی اس چڑے کا انتظار کرتے رہتے۔ وہ اس کے لیے دانہ اور ایک پیالی میں پانی رکھ دیتے۔ چڑا آتا دانہ کھاتا ادھر ادھر گھومتا، کبھی ان
گرمی میں ایک شیر شکار کو نکلا۔ چلچلاتی دھوپ میں، تپتی ہوئی زمین پر چلنے سے وہ جلد ہی تھک گیا اور ایک بڑے سے سایہ دار گھنے درخت کے نیچے آرام کرنے لیٹ گیا۔ ابھی وہ سویا ہی تھا کہ کچھ چوہے اپنے بلوں سے باہر نکلے اور نادانی سے اس کی پیٹھ پر اچھلنے کودنے
ایک انگریز سیاح پہلی بار ہندوستان آیا۔ دہلی میں لال قلعہ دیکھ کر وہ بہت تعجب ہوا۔ اس نے قریب کھڑے ہوئے ایک شخص سے پوچھا۔ ’’یہ عمارت کس نے بنائی تھی؟‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’معلوم نہیں صاحب‘‘ انگریز نے اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا کہ لال قلعہ معلوم
Sign up and enjoy FREE unlimited access to a whole Universe of Urdu Poetry, Language Learning, Sufi Mysticism, Rare Texts
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books