آتش بازی
امی صائمہ اور ابو مدثر کے ساتھ فرحان میاں اپنے نئے گھر میں داخل ہوئے تو ٹیرس دیکھتے ہی ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ امی سے کہنے لگے اب تو میں رنگ برنگے پھولوں کے گملے لاؤں گا۔ مجھے پھول بہت پسند ہیں۔ کرسی ٹیبل بھی یہاں رکھنا میں اپنی پڑھائی یہیں بیٹھ کر کیا کروں گا۔
مدثر صاحب بھی بہت خوش تھے۔ گھر کی ہر چیز جگہ پر رکھ دی گئی۔ فرحان میاں کے دوست بھی آئے وہ بھی بہت خوش ہوئے۔ گھنٹوں ٹیرس پر بیٹھ کر کیرم کھیلتے رہے۔
فرحان کی نظر ایک دن بازار جاتے ہوئے ایک پنجرے پر پڑ گئی، ان کو بہت ہی اچھا لگا۔ پنجرہ دل میں گھر کر گیا، اس کو خرید کر لانا مقصد بن گیا۔ چھوٹے سے گھر کی طرح بنا ہوا پنجرہ تھا۔ اس میں رنگین چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ فرحان نے اپنی خواہش کا اظہار والدہ سے کیا تو انہوں نے منع کیا اور کہا پرندوں کو آزاد رہنا چاہئے پنجرہ خرید کر لانے کی ضد مت کرو۔
اتفاق سے فرحان میاں کے ماموں جان آئے ہوئے تھے۔ بھانجے نے فرمائش کی ماموں جان مجھے رنگین چڑیوں والا پنجرہ لادیں۔ انہوں نے کہا بیٹا جب تم چھٹیوں میں گاؤں آؤگے تو ہم تمہیں اچھی اچھی چڑیوں والا پنجرہ دیں گے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن فرحان جب چھٹیوں میں گاؤں گئے تو ماموں سے فرمائش کی۔ والد صاحب نے بھی سمجھانے کی کوشش کی مگر فرحان کی ضد کے آگے کسی کی نہ چلی۔ پڑھائی لکھائی میں اچھے ہونے کے سبب سبھی فرحان کا لاڈ کرتے تھے۔ اس لئے ان کی خواہش کے مطابق ایک پنجرہ خریدا گیا اور نہایت خوبصورت چڑیاں اس میں رکھی گئیں۔
فرحان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ صبح اٹھ کر انہیں دیکھنا اور انہیں باجرہ اور چھوٹے چھوٹے پھلوں کے ٹکڑے کر کے کھانے دینا ان کا معمول بن گیا۔ غرض کہ دن بہت اچھے گزر رہے تھے۔ گاؤں سے واپسی کے وقت سامان کے ساتھ پنجرہ کا اضافہ ہوا۔ پنجرہ کارکی پچھلی سیٹ پر رکھا گیا۔
ڈر تھا کہ ڈگی میں چڑیاں مر جائیں گی، چار گھنٹے کا سفر تھا۔ پچھلی سیٹ پر چادر بچھائی گئی اور اس پر پنجرہ رکھا گیا۔ پنجرے کے پاس فرحان میاں آرام سے بیٹھ گئے۔ گھر پہنچتے ہی ٹیرس پر پنجرہ پہنچایا گیا۔
دیوالی آنے سے پہلے ہی دیوالی کی رونقیں ہر طرف بڑھ جاتی ہیں۔ فرحان میاں بھی ہر سال دیوالی میں پھلجڑی (مہتابی) اور انار بازار سے ابو کے ساتھ خرید کر لاتے اور رات میں انہیں جلانے میں بڑا مزہ آتا۔
اس سال بھی فرحان ابو کے ساتھ جاکر پھلجھڑیاں اور انار خرید لائے۔ روزانہ ٹیرس پر ایک موم بتی جلا کر رکھتے اور دو چار پھلجھڑیاں جلاتے اور خوش ہوتے۔ جب ساری پھلجھڑیاں ختم ہو گئیں تو انار جلانے کی باری آئی، انار کا فیتہ جلایا گیا۔ بڑی خوبصورت روشنی نکلی لیکن تھوڑی ہی دیر میں بڑے زور سے پٹاخہ بھی پھوٹا اور ہر طرف دھواں دھواں ہو گیا۔ پٹاخے کی آواز کی شدت سے فرحان میاں گھبرا گئے۔ امی سے آکر لپٹ گئے۔ ذرا دھواں کم ہوا تو دیکھا کہ پنجرے میں تمام چڑیاں پڑی ہوئی ہیں انہیں نکال کر دیکھا تو سمجھا کہ بیہوش ہو گئی ہیں۔ فرحان نے ابو سے کہا ہم انہیں پرندوں کے دواخانے لے چلتے ہیں۔ ابو نے چڑیوں کو اٹھا کر دیکھا تو کہنے لگے پٹاخے کی آواز کی شدت سے یہ مر گئی ہیں۔ انہیں لے جانا بےکار ہے۔
امی کا پارہ آسمان پر چڑھ چکا تھا۔ کہنے لگیں کہ دیکھا ضد کا انجام کیا ہوتا ہے۔ تم نے ان چڑیوں کو قید نہ کیا ہوتا تو یہ بچ جاتیں۔ فرحان رونے لگا۔ غلطی کا احساس ہوا۔ دوسرے دن فرحان کے ابو اور امی کے پاس آکر کہا پنجرے کا دروازہ نکلوا دیں اب میں اس میں ایک پانی کا برتن اور دانے رکھا کروں گا تاکہ کسی بھی چڑیا کو اڑتے اڑتے پیاس لگے تو آکر پانی پی سکے اور دانہ کھا سکے۔
امی اور ابو نے بیٹے کی بات سنی تو ہنس پڑے۔ امی کی آنکھیں خوشی کے مارے چھلک پڑیں آخر ان کے بیٹے کی سمجھ میں آہی گیا کہ پرندوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.