پہلی اکتوبر کو ہمارے گوشی کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ بڑے دھوم دھام سے ننھے منے خرگوش مبارکباد دینے آتے ہیں اپنے ساتھ گوشی کے لئے تحفے بھی لاتے ہیں۔ ہری ہری گھاس، مولی کے بڑے بڑے پتے، گاجریں، مٹر، ساگ، سیب ، انگور، کیلے اور بسکٹ بھی اور یہ سب چیزیں پلاسٹک کی بڑی خوبصورت تھیلیوں میں لائی جاتی ہیں۔ ان کو دیکھ کر خرگوش کی کیا حالت ہوتی ہے بس کچھ نہ پوچھئے۔ منہ میں پانی بھر آتا ہے اور مارے خوشی کے وہ اپنے لمبے لمبے کان بھی ہلاتے جاتے ہیں۔
پچھلے سال کی سالگرہ کا حال سنو! جو اتفاق سے آل انڈیا خرگوش کانفرنس بن گیا۔
ہم لوگوں نے اپنے گوشی کی سالگرہ پر اپنے ایک درجن دوستوں کو مدعو کیا۔ دعوت نامہ پر گوشی کی تصویر بھی شائع کی گئی تھی۔ ہمارے ہر دوست کے یہاں دو دو ایک ایک خرگوش ہیں۔ کسی کسی کے پاس تین تین اور چار بھی ہیں۔ انہیں لکھ دیا گیا کہ وہ اپنے ہمراہ سبھی خرگوش کو لے کر آئیں۔
ٹھیک پانچ بجے ہمارے گھر کے سامنے کئی گاڑیاں، رکشہ اور اسکوٹر جمع ہو گئے۔ ان میں ٹکو، ٹینو، ککی، مینو، آکو، نیرو، ڈبو، پوگی، راجو، شیشو اور بے بی وغیرہ اترے۔ ان سب کی گود میں اپنے اپنے خرگوش تھے اور ہاتھوں میں تحائف کے بنڈل۔ وہی تحفہ جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ان پیکٹوں پر ایک خرگوش کا نام بھی لکھا تھا۔ لکی کی طرف سے، پروفیسر کی طرف سے، مون لائنٹ کی طرف سے، ڈکی اور وڈ وڈ کی طرف سے وغیرہ وغیرہ۔
بڑے کمرے میں سارے خرگوش کو فرش پر چھوڑ دیا گیا۔ نرم نرم قالین پر پیارے پیارے ۲۰ خرگوش پہلے تو دوڑے پھرے اور پھر اچھل اچھل کر صوفوں پر چڑھ گئے۔ بڑی شان سے جم کر بیٹھ گئے۔ ہمارے گوشی پہلے ہی دیوان پر براجمان تھے۔ اس کے سامنے گلاب کے پھولوں کا ڈھیر لگا تھا۔ اس کا جی چاہتا تو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک آدھ پتی منہ میں لے کر چبا لیتا ورنہ بڑے مزے سے ناک سے سانس لیتا ہوا کان ہی ہلاتا رہا۔ اپنی اپنی لال آنکھوں سے جو کسی غصہ سے نہیں بلکہ قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے ایسی تھیں موجود خرگوش کی جانب باری باری دیکھ رہا تھا۔
وہاں سے سارے بچے بھی ایک طرف کھڑے مسکرا رہے تھے۔ جب پولی نے اپنے خرگوش کی سالگرہ شروع ہونے کی اطلاع دی، سب بچوں نے اپنے اپنے خرگوش کے تحفے بیچوبیچ قالین پرکھ دیئے۔ تحائف دیکھ کر گوشی نے مسرت سے کان ہلا ہلا کر دیکھ لیا تھا وہ ان سب کا ممنون احسان ہو رہا ہے۔
پولی نے اس موقع پر ہری گھاس کے رنگ کا ایک بڑا کیک بنوا کے رکھ تھا اوپر سے تو گھاس ہی لگتی تھی مگر نیچے حقیقتاً بڑا لذیز کیک پوشیدہ تھا۔ کیک کے آس پاس سات عدد موم بتیاں جلائی گئیں۔ گوشی کی یہ ساتویں سالگرہ تھی۔ وہ دوسرے تمام خرگوشوں میں زائد عمر کا تھا۔ سب بچوں کی تالیوں کی گونج کے ساتھ موم بتیاں بجھائی گئیں اور کیک کاٹا گیا۔ ایسا کرنے میں پولی نے گوشی کی مدد کی۔ پولی نے اسے گود میں اٹھا رکھا تھا۔ دوسرے خرگوش نے اس وقت کان ہلا ہلا کر اپنی مسرت کا اظہار کیا۔ ان سب میں کیک کے اوپر لگی گھاس تقسیم کر دی گئی کیک کے ٹکڑے بچوں نے بانٹ لئے۔
جب وہ سب کیک کھانے اور ایک دوسرے کو پیار کرنے میں مشغول تھے۔ اس وقت پولی کا بڑا بھائی بلو آ گیا۔ بلو بہت شریر لڑکا تھا۔ سب بچے سہم گئے وہ ضرور کوئی شرارت کرے گا ہو سکتا ہے کہ ان کے خرگوش چھین کر بھاگ جائے۔ اس نے وہاں آتے ہی اطلاع دی۔
سارے بچے ایک طرف دیوار کے سہارے کھڑے ہو جائیں۔ آج خرگوشوں کی آل انڈیا کانفرنس ہوگی۔ اس میں سارے خرگوش اپنی اپنی مشکلات پر غور کریں گے۔ سب بچے دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو گئے۔ بنو نے پھر کہا ’’آج کے اس مخصوص جلسہ کا صدر گوشی کو چنا جاتا ہے کیوں کہ وہی سب سے عمر میں بڑے ہیں‘‘ اس کے بعد گوشی کو گلے میں پھولوں کا ہار پہنایا گیا جسے اس نے کان جھٹک جھٹک کر اتار دیا۔ بلو نے ہار اس کے سامنے پھر ڈھیر بنا کر رکھ دیا۔
چونکہ ہر خرگوش الگ جگہ پر بیٹھا تھا بلو نے اس کے پیچھے ایک ایک بچے کو رہنے کا حکم دیا جب بچے اس کے حکم کے مطابق کھڑے ہو گئے تو بلو نے اپنی جیب میں سے کاغذ کے کئی پرزے نکالے۔ ہر کاغذ پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا تھا۔ اسی نے سب بچوں کو ایک ایک کاغذ دیتے ہوئے کہا’’ان پر خرگوشوں کی مانگیں لکھی ہوئی ہیں‘‘ ان کی رائے اور مانگیں بھی درج ہیں۔ اب سب بچے باری باری اپنا کاغذ پڑھ کر سنائیں گے۔
بچے اس تماشہ سے بہت خوش ہوئے اپنے خوش کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔ نیرو نے پروفیسر کے پیچھے کھڑے ہو کر بلند آواز سے پڑھا۔ ’’ہم لوگوں کو پڑھنے لکھنے کے موقع نہیں ملتے ہیں جب تک ہمارے لئے اسکول اور کالج نہیں کھل جاتے تب تک ہمیں دنیا کی بڑی بڑی کتابیں کاٹ کاٹ کر کھانے کا موقع ضرور دیا جانا چاہئے۔‘‘
مینو نے اپنے لکی کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھا۔ بھارت سرکار خرگوش کی ترقی اور بھلائی کے لئے لاٹری ٹکٹ جاری کرے جس کی آمد سے ایک الگ ’’خرگوش پردیش‘‘ قائم کیا جا سکے۔ اس میں کتوں اور بلیوں کو کسی بھی حالت میں گھسنے کی اجازت نہ ہو۔ صرف چھوٹے چھوٹے بچے ہم سے ملنے کے لئے ضرور آ سکیں‘‘۔
یہ سن کر سارے بچوں نے زور زور سے تالیاں بجائیں۔ خرگوش نے بھی کان ہلا ہلاکر اس مانگ کا ساتھ دیا۔
اب ٹکی کی باری تھی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذ کو پڑھنے سے پہلے اس پر ڈاکٹر کے دستخط کرائے اس کے بعد بولی ’’خرگوش کے لئے ایک الگ ہسپتال کا انتظام ہونا چاہئے۔ ہم ان ہسپتالوں میں نہیں جائیں گے جہاں دوسرے جانوروں کا بھی علاج ہوتا ہے۔ ان کی بدبو سے ہماری ناک پھٹتی ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہم بھوک ہڑتال کریں گے۔ گھاس اور پتے کھانا چھوڑ دیں گے۔‘‘
اس پر بھی خوب قہقہے لگے۔
آخر میں پولی نے جلسہ کے صدر گوشی کی طرف سے ایک تقریر پڑھ کر سنائی۔ خاص باتیں اس طرح تھیں:
’’میں نے آپ لوگوں کی مانگیں غور سے سنیں، کچھ سے میں اتفاق کرتا ہوں کچھ سے متفق نہیں ہوں۔ پھر بھی میں غور کروں گا۔ اگر آپ نے مجھ کو سچ مچ اپنا لیڈر چن لیا ہے تو میں آپ کی آواز انسانوں تک ضرور پہونچاؤں گا جو اس وقت ہمارے سب سے بڑے دوست ہیں۔ اب وقت نہیں ہے اور ہم سب کو بڑے زور کی بھوک لگی ہے۔ ان بچوں کو بھی بھوک لگی ہوئی ہے ہم سب تو ان تحائف پر ہی ٹوٹ پڑیں گے۔ مگر یہ ہمارے بچے کیا کھائیں گے مگر میری ناک کہتی ہے کہ ان سب کے لئے بھی برابر کے کمرے میں بڑا مزیدار کھانا لگایا جا رہا ہے ادھر سے خوشبو آنی شروع ہو گئی ہے خرگوش ایکتا زندہ باد۔
کھانے کی خوش خبری سن کر سارے بچے ساتھ والے کمرے کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ جاتے وقت وہ خرگوشوں کے کمرے کے دروازہ اور کھڑکیاں بند کرتے گئے تاکہ کوئی بلی کیا کتا ان پر نہ جھپٹ پڑے۔ خرگوش اپنے دانتوں اور پنجوں سے تحفے والے پیکٹ پھاڑنے میں لگے ہوئے تھے۔ بلو جس نے آج بچوں کے پروگرام کو بہت دلچسپ بنا دیا تھا۔ ہنستے ہنستے بچوں میں پلٹیں اور چمچے بانٹتا پھر رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.