اپنا حق
بہت زمانہ کی بات ہے کہ ایران میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کا عدل و انصاف دور دور تک مشہور تھا۔ اس نے اپنے محل کے دروازہ پر ایک صندوق رکھوا دیا تھا جس میں اس کی رعایا اپنی شکائتیں اور تکلیفوں کی عرضیاں لکھ کر ڈال دیا کرتی تھی۔ بادشاہ ہفتہ میں ایک دن اس صندوق کو کھلواتا اور ان عرضیوں پر غور کرتا اور پھر اپنی رعایا پر ہونے والی تکلیفوں اور پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ رعایا اس سے بہت خوش تھی۔
ایک دفعہ جب صندوق کھولا گیا تو صندوق میں جمع ہوئی عرضیوں کے ساتھ ایک عرضی کسی لڑکی کی بھی تھی۔ اس عرضی میں لڑکی نے بادشاہ کی بڑے اچھے الفاظ میں تعریف کی تھی۔ اس عرضی کو پڑھ کر بادشاہ متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ اس نے لڑکی کو اپنے دربار میں حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا۔ کچھ دیر بعد ہی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس اوپر سے ایک میلا برقع اوڑھے ہوئے وہ لڑکی دربار میں حاضر ہوئی۔ اس نے بادشاہ کو شاہی ڈھنگ سے آداب کیا اور دست بستہ کھڑی ہو گئی۔ بادشاہ نے اس کی طرف دیکھا اور بولا۔
’’لڑکی ہم تمہارے خط سے بیحد خوش ہوئے جس ڈھنگ اور شاہی آداب و خیال کو مدنظر رکھ کر تم نے یہ عرضی لکھی ہے ہم اس سے بہت متاثر ہوئے ہم تمہیں کچھ انعام دینا چاہتے ہیں بولو تمہیں کیا چاہئے؟‘‘
’’جہاں پناہ گستاخی معاف ہو خدا کا دیا سب کچھ ہے میں‘‘ لڑکی کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
’’ڈرو نہیں لڑکی بغیر کسی جھجھک و خوف جو کچھ کہنا چاہو کہو، ہم تمہاری فریاد کو سن کر اسے پورا کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔ بادشاہ نے لڑکی کو ہمت دلائی۔
’’جہاں پناہ میں ایک آدمی سے شادی کرنا چاہتی ہوں مگر وہ مجھ سے شادی کرنے سے صاف انکار کرتا ہے‘‘
بادشاہ سلامت اس لڑکی کی بات سن کر سوچ میں ڈوب گئے۔ سوچنے لگے کہ ہو سکتا ہے یہ لڑکی بدصورت ہو یا اس کے جسم پر کہیں، کسی حصہ پر کوئی عیب ہو یا پھر اس کی ایک آنکھ نہ ہو اس کی آواز کوئل کی آواز کی طرح میٹھی تھی شاید اس کا رنگ بھی کوئل جیسا ہو بادشاہ ان ہی سوالوں میں الجھا رہا۔ آخر اس نے لڑکی کو نقاب الٹنے کا حکم دیا۔ بادشاہ تو ماں باپ کی جگہ ہوتے ہیں یہ سوچ کر بغیر کسی جھجھک کے لڑکی نے اپنا نقاب الٹ دیا اور بادشاہ نے دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے چودھویں کا چاند زمین پر اتر آیا ہو۔ انہوں نے اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کون ہے وہ بدنصیب! جو تم سے شادی کرنے سے انکار کرتا ہے؟‘‘
لڑکی نے اس شخص کا نام اور پتہ بتلاتے ہوئے کہا ’’جہاں پناہ وہ کبھی ہاں نہیں کرے گا طرح طرح کے بہانے بنائےگا جھوٹ بولےگا‘‘
’’تم بےفکر رہو لڑکی ہم اس کی ایک نہ چلنے دیں گے۔‘‘
اور ہم تمہاری خواہش کے مطابق اس کے ساتھ شادی کرائیں گے۔ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں‘‘۔
بادشاہ کی زبان سے ایسے کلمات سن کر لڑکی بہت خوش ہوئی۔ ایک جوان آدمی کو بادشاہ کے سپاہی دربار میں لے کر حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے اس کا نام و پتہ جان کر اس سے کہا۔
’’اے نوجوان! کیا تم اس لڑکی سے شادی کرنے سے انکار کرتے ہو؟‘‘
بادشاہ کا یہ سوال سن کر وہ نوجوان کچھ گھبرایا مگر دوسرے ہی لمحہ وہ سنبھل کر بولا ’’جہاں پناہ یہ تو میری بہن ہے میری حقیقی بہن بھلا میں اس سے کیوں شادی کر سکتا ہوں۔‘‘
بادشاہ کو یاد آیا کہ اس لڑکی نے کہا تھا‘‘ وہ کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور بنائےگا۔‘‘
’’تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ تمہاری حقیقی بہن ہے۔ اس بات کا ثبوت ابھی اور اسی وقت دینا ہوگا۔‘‘ بادشاہ نے سخت لہجہ میں کہا۔
’’عالم پناہ میں اس بات کا ابھی ثبوت پیش کر سکتا ہوں مگر مجھے دو گھنٹہ کی مہلت دے دی جائے۔‘‘
اور بادشاہ نے اس نوجوان کو دو گھنٹہ کی مہلت دیدی۔ دوگھنٹہ کے بعد وہ نوجوان اپنے محلے کے دو تین بزرگوں کو ساتھ لے کر آیا۔ ان بزرگوں نے بادشاہ کے پوچھنے پر اس نوجوان کے بیان کی تصدیق کردی اب بادشاہ نے لڑکی کی طرف دیکھا کہ وہ کچھ اور کہنا چاہتی ہے۔ لڑکی کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے بڑی بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’جہاں پناہ ملاحظہ فرمایئے اب سے چھ ماہ پیشتر ان ہی بزرگوں نے اسی دربار میں حضور کے روبرو حلف اٹھا کر کہا تھا کہ
’’میں اس جوان کی بہن نہیں ہوں کیوں کہ اس وقت جائیداد کا جھگڑا تھا۔ میرا باپ لاکھوں روپے کی جائیداد چھوڑ کر مرا تھا۔ اس بھائی نے ایک پائی نہیں دیا اور جب میں نے حضور کے دروازہ کھٹکھٹایا تو ان ہی بزرگوں نے قسم کھا کر مجھے اس کی بہن ہونے سے انکار کر دیا تھا اور آج یہی بزرگ مجھے اس کی بہن بتا رہے ہیں‘‘
لڑکی کی بات سن کر دربار میں سناٹا چھا گیا حاضرین دربار لڑکی کی عقلمندی پر حیران رہ گئے گواہوں اور اس نوجوان کے ہوش اڑ گئے۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق چھ ماہ پچھلی مثل منگوائی گئی لڑکی کے بیان کی تصدیق ہو چکی تھی۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس نے لڑکی کو اس کے حق کا حصہ دلوا دیا اور شاہی خزانہ کی طرف سے انعام و اکرام دیا گیا۔ اس کے بھائی اور جھوٹی گواہی دینے والے بزرگوں کو مناسب سزائیں دی گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.