Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپریل فول بنایا

رئیس صدیقی

اپریل فول بنایا

رئیس صدیقی

MORE BYرئیس صدیقی

    ابھی آدھی رات گزری تھی کہ نہ جانے کیوں اور کیسے میری آنکھ کھل گئی۔

    میں نے بہت کوشش کی کہ سو جاؤں، مگر نیند تھی کہ کسی طرح آنے کو راضی نہیں تھی۔

    میں نے لائٹ آن کی اور گھڑی دیکھی تو وہ صبح کے چار بجا رہی تھی۔ اچانک لیٹے لیٹے میں اٹھ بیٹھا اور نئی نئی شرارتیں ذہن میں جنم لینے لگیں۔ بہت غور کرنے کے بعد میں نے طے کیا کہ اس شرارت پر عمل کرنا چاہئے۔ بس پھر کیا تھا۔ ’’چور چور۔۔۔چور‘‘ چلاتے ہوئے میں اپنی امی کے پلنگ پر منہ کے بل دھڑام سے گر پڑا۔ آواز اتنی تیز تھی کہ ان کے ساتھ ساتھ۔۔۔ بہن بھائی بھی جاگ گئے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ چونکہ گھر پر والد صاحب نہیں تھے اس لئے ذرا امی بھی ڈریں اور فوراً دونوں کمروں کی لائٹ روشن کی اور میرے کمرے کا جائزہ لیا۔ میرے کمرے میں چور تو چور ایک چوہا بھی نظر نہ آیا۔

    ’’کہاں چور ہے۔ جو چور چور چلا رہے تھے؟‘‘ امی بڑبڑائیں۔

    وہ سوالات پہ سوالات کئے جا رہی تھیں اور میں بالکل خاموشی اور گم سم بیٹھا ہوا تھا۔

    اس طرح چند لمحے گزر گئے۔ اچانک میں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ اب تو سب لوگ اور ڈر گئے۔

    ’’کیا بات ہے رئیس؟‘‘ امی نے مجھے جھنجھوڑا۔

    ’’ارے واہ بھئی واہ۔۔۔ آپ لوگ اس قدر ڈرپوک ہیں۔ میں نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

    ’’بھیا ڈرنے کی تو بات ہے۔‘‘ میری چھوٹی بہن ناہید بولی۔

    ’’ارے پگلی آج پہلی اپریل ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’اچھا تو آج آپ نے فرسٹ اپریل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سب کو فول (بیوقوف) بنایا ہے۔‘‘ میری بہن فردوس بولی۔

    ’’جی ہاں بہت دیر کے بعد آپ سمجھیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں اپنے کمرے کی طرف لپکا تاکہ امی میری خاطر تواضع سے باز رہیں۔

    ابھی صبح ہوئی تھی کہ میں نے اپنی شرارتوں کا نشانہ بنانے کے لئے چند دوستوں کو منتخب کیا۔ میں نے اپنے دوست عاصم کے ذریعے اپنے محلے کے ہوٹل کے مالک قمر کو یہ اطلاع دی کہ ممبئی سے ٹرنک کال آیا ہے۔ جلدی آ جاؤ۔

    قمر صاحب پوری وغیرہ چھوڑ کر میرے پاس بھاگے ہوئے آئے۔

    قمر بھائی وقت ختم ہو رہا تھا اس لئے آپ کے بھائی صاحب نے آپ کے نام ایک پیغام لکھوانے کے بعد فون رکھ دیا۔

    میں نے ایک کاغذ قمر صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

    ’’انہوں نے جلدی سے پرچہ کھولا۔ ایں فرسٹ۔۔۔اپریل۔۔۔فول‘‘ انہوں نے پڑھتے ہوئے میری طرف دیکھا۔

    ’’قمر بھائی گستاخی معاف آج فرسٹ اپریل ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    پھر میں نے سوچا کہ بھئی کیوں نہ آج کسی رشتہ دار کو فول بنایا جائے چنانچہ میں دوڑا دوڑا اپنی ممانی کے یہاں پہنچا۔ ’’ممانی! میری امی کی بہت طبیعت خراب ہے جلدی چلئے آپ کو بلایا ہے۔‘‘

    ایکٹنگ کرتے ہوئے میں نے کہا۔

    ممانی ہائے اللہ کرتے ہوئے ڈلی وغیرہ کا بٹوہ سنبھالنے لگیں۔ میں موقع پاکر اسی بیچ امی کے پاس آیا اور ہانپتے ہوئے بولا۔

    ’’امی۔ امی۔ ممانی کو دورہ پڑ گیا۔ جلدی چلئے۔ ماموں ڈاکٹر کو بلانے گئے ہیں۔

    ’’ارے! ۔۔۔اچھا جلدی رکشہ بلا لاؤ۔ امی نے حکم دیا۔

    میں رکشہ لے کر آیا۔ ابھی ہم بیٹھ ہی رہے تھے کہ ممانی کا رکشہ آ گیا۔ دونوں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے اور میں ’’اپریل فول‘‘ بنایا کہہ کر بھاگا۔

    پھر میں سامنے ٹیلر ماسٹر صاحب کے پاس گیا اور بولا۔

    بھائی نے آپ کو یاد فرمایا ہے شیروانی کی ناپ لینا ہے۔

    ماسٹر صاحب نے اپنا سامان سنبھالا اور رشید بھائی کے پاس آئے۔

    ’’بھئی جلدی کرو، ہمیں ایک کام سے جانا ہے۔‘‘ چونکہ دونوں گہرے دوست ہیں، اس لئے وہ بلاتکلیف بولے۔

    ’’کیا مطلب ماسٹر صاحب؟‘‘ رشید بھائی ذرا فکر مند ہوکے بولے۔

    ’’بھئی شیروانی کی ناپ دوگے یا نہیں؟‘‘ ماسٹر صاحب بیزار ہوتے ہوئے بولے۔

    رشید بھائی نے میری طرف دیکھا۔ میں ہنسی نہ روک سکا۔ رشید بھائی سمجھ گئے۔

    ’’بھائی جائیے۔۔۔ آج فرسٹ اپریل ہے۔ رئیس نے آپ کا فول بنایا ہے۔

    ماسٹر صاحب کھسیا گئے مگر بےچارے اپنی جھینپ مٹانے کے لئے قہقہہ لگانے لگے۔

    قریب دو بج رہے ہوں گے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب کسی کو بیوقوف نہ بنایا جائے۔۔۔ لوگ بہت بن چکے۔ چنانچہ میں پڑھنے بیٹھ گیا۔

    قریب ایک گھنٹہ کے بعد دروازے کی گھنٹی بجی میں باہر آیا تو شکیل کو کھڑا پایا۔ ارے بھئی خیریت تو ہے کہئے کیسے آنا ہوا؟ میں نے پوچھا۔

    ’’تمہارے رشید بھائی نے رام بابو کانپور والوں کے پیسے پوچھے ہیں۔ اس پرچے میں ان کا حساب نوٹ کر دو۔

    شکلیل نے کاغذ بڑھاتے ہوئے کہا۔

    میں نے پرچہ لیا اور اس کو کھولتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔

    ’’تمہارا چچا۔۔۔!‘‘

    اچھا تو میاں نے مجھے فوٹ بنایا ہے۔ صبح سے میں لوگوں کو بنا رہا ہوں۔ یہ میاں مجھ کو بنا گئے۔ خیر کوئی بات نہیں۔۔۔میرا نام بھی رئیس ہے۔‘‘

    میں فوراً باہر آیا تاکہ کسی طرح سے شکیل کو فون بناؤں۔ مگر شکیل وہاں سے جا چکا تھا اور میں دن بھر افسردہ رہا کہ صبح تو میں لوگوں کو اپریل فول بنا رہا تھا اور وہ نامراد مجھے فول بنایا گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے