عاطف نے اپنے پڑوس میں طوطا کیا دیکھا، اسے بھی طوطا پالنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ وہ مسلسل اپنے ابو سے فرمائش کرنے لگا۔ ابو اسے سمجھاتے، بیٹا اس شوق میں تمہارا بہت وقت خراب ہوگا۔ تم اپنی پڑھائی ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کر پاؤگے۔ جس سے تمہارے رزلٹ پر اثر پڑے گا اور تم فیل ہو جاؤگے۔ مگر اس نے اپنی ضد نہیں چھوڑی۔ ایک دن تو حد ہی ہو گئی۔ وہ کھانا پینا چھوڑکر تو تالانے کی رٹ لگانے لگا۔ آخرکار اس کی بات مان لی گئی۔ شام کو ابو ایک طوطا گھر لے آئے۔
طوطے کے آتے ہی وہ سب کچھ ہونے لگا جس کا خدشہ پہلے ہی سے تھا۔ عاطف کا سارا سارا دن طوطے کی دیکھ بھال میں گزرنے لگا۔ اسے کھانے کا ہوش رہا اور نہ ہی سونے۔ وہ اسکول بھی دیر سے جانے لگا۔ اس طرح بہت سے دن گزر گئے اور امتحان قریب آ گیا۔ جیسے تیسے کر کے اس نے امتحان تو دے دیا مگر پاس نہ ہو سکا۔ اس کے باوجود اس کی آنکھیں نہ کھلیں۔ پہلے ہی کی طرح دن بھر طوطے کے ساتھ چپکا رہتا۔
ابو نے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ آخرکار انہوں نے بہت سوچا اور ایک ترکیب ان کی سمجھ میں آ گئی جس کو عمل میں لانے کے لیے مہینوں سخت محنت کرنی پڑی اور ایک دن سچ مچ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔
ایسے وقت میں جب عاطف گھر میں نہیں ہوتا یا پھر میٹھی نیند سویا ہوتا، اس وقت ابو طوطے کو بعض ایسے جملے سکھاتے رہتے جنہیں وہ موقع محل کے اعتبار سے مختلف اوقات میں دہرا سکے۔ طوطے نے بھی سارے جملے اچھی طرح سے رٹ لیے اور موقع کا انتظار کرنے لگا۔
ایک دن صبح کے وقت ہلکی ہلکی پھواریں پڑ رہی تھیں۔ اور ہوا میں ٹھنڈک کا احساس بھی بڑھ گیا تھا۔ سبھی بچے اپنے اپنے بستر کو چھوڑ کر ہاتھ میں برش لیے گھر سے باہر موسم کا مزہ لے رہے تھے، مگر عاطف اپنے لحاف میں لپٹا میٹھی نیند سو رہا تھا۔ ابو کئی بار آکر اسے جگا چکے تھے۔ مگر وہ ’’اوں آں‘‘ کرنے کے بعد پھر سے سو جاتا تھا۔ اسی وقت اچانک طوطے کی آواز کمرے میں گونج اٹھی:
’’ابے عاطف۔۔۔ سویا ہی رہےگا۔۔۔ اٹھ ۔۔۔ دھوپ نکل آئی ہے۔‘‘
طوطے نے اس جملے کو بار بار دہرایا تو عاطف کی نیند کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ جما ہی لیتا ہوا اٹھ بیٹھا اور آنکھیں مل مل کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ کمرے میں طوطے کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ اسے لگا کہ خواب میں یہ سب سنا ہے اور وہ پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا۔ تبھی طوطے کی آواز پھر سے آئی:
’’ابے اٹھ۔۔۔ جاکر برش کر۔۔۔ منہ ہاتھ دھو کر تیار ہو جا۔‘‘
عاطف ہڑبڑا گیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر طوطے کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے حیرت ہوئی کہ طوطے کو کیا ہو گیا ہے اور وہ ایسی زبان کیوں بول رہا ہے؟ لیکن اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ اسی درمیان طوطے نے پھر سے ہانک لگائی تو اس نے بستر چھوڑ دیا اور سیدھے باتھ روم کی راہ لی۔ پہلے اس نے برش کیا اور نہا دھوکر ناشتے کی میز پر جاکر بیٹھ گیا۔ ناشتہ پہلے ہی سے میز پر لگا ہوا تھا۔ ابو کے ساتھ اس نے ناشتہ کیا اور گرم گرم دودھ پی کر پنجرے کے پاس چلا آیا۔ طوطا پنجرے میں بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ عاطف کو دیکھ کر چونک گیا اور اپنی گردن ہلانی شروع کر دی۔ تبھی ابو نے نظریں بچا کر طوطے کو اشارہ کیا طوطے نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہنا شروع کیا:
’’ابے۔۔۔ میرے پاس کھڑا کیا کر رہا ہے۔۔۔ اسکول جانا نہیں ہے کیا؟‘‘
طوطے کی باتیں سن کر عاطف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے بے انتہا حیرت ہورہی تھی۔ آج سے پہلے کبھی بھی اس نے طوطے کو ایسی باتیں کرتے نہیں سنا تھا۔ وہ سوچنے لگا، مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو پوچھا:
’’طوطے میاں۔۔۔ میں ساتھ میں کھیلنا چاہتا ہوں اور تم ہو کہ۔۔۔‘‘
طوطے نے عاطف کی باتیں سن کر اپنی گردن گھمالی اور اپنے سابقہ جملے دہرانے لگا۔ عاطف اسکول جانے کے لیے تیار تو ہو گیا لیکن سارا دن اس کے ذہن میں طوطے میاں کے جملے گونجتے رہے۔ اسکول سے واپسی پر اس نے طوطے کے ساتھ مل کر کھیلنا چاہا، مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ طوطے نے اس کی طرف آنکھیں اٹھاکر دیکھا تک نہیں۔ وہ اکیلے ہی ایک گیند کے ساتھ کھیلتا رہا۔ کھیلتے کھیلتے کافی وقت گزر گیا۔ اچانک طوطے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی:
’’ابے۔۔۔ بس بھی کر۔۔۔ اپنا ہوم ورک تو کر لے۔‘‘
عاطف کو ایک دم سے جھٹکا لگا۔ وہ ہڑبڑا گیا اور طوطے کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ طوطا تھا کہ مسلسل اپنے جملے دہرائے جا رہا تھا۔ جھلاہٹ میں اس نے پنجرے کو بائیں ہاتھ سے جھٹکا دیا اور پڑھنے کی میز پر آکر بیٹھ گیا۔
اس دن ابو کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ جس طرح وہ چاہتے تھے، طوطے نے ٹھیک ویسے ہی کیا۔ اس کے بعد تو روزانہ کا معمول بن گیا۔ جیسے ہی طوطے کو محسوس ہوتا کہ عاطف اپنے کام سے جی چرا رہا ہے۔ وہ اپنے رٹے ہوئے جملوں کو دہرانے لگتا جسے سن کر عاطف اپنے کام میں لگ جایا کرتا تھا۔
اس طرح کئی مہینے گزر گئے۔ ایک دن تنگ آکر عاطف نے پنجرے کا منہ کھول دیا اور طوطا پھڑ پھڑا کر اڑ گیا۔ اس وقت ابو برآمدے میں بیٹھے دھوپ کا مزہ لے رہے تھے۔ طوطا اڑتا ہوا سیدھے ان کے پاس گیا اور ایک خالی کرسی کے ہتھے پر بیٹھ گیا۔ ابو نے اپنے ہاتھوں پر اٹھاکر اسے خوب خوب پیار کیا اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے:
’’آپ کی اصل جگہ چھوٹا سا پنجرہ نہیں۔۔۔ بلکہ یہ کھلا ہوا آسمان ہے۔۔۔ جائیے کھلی فضا میں۔۔۔ اور وہاں۔۔۔ عاطف میاں سے بھی ملنے آ جایا کیجئےگا۔۔۔ وہ اب بھی آپ کو پیار کرتا ہے۔‘‘
ابو کی باتیں سن کر طوطے نے پنکھ تولا اور اڑ گیا۔ تھوڑی دور اونچائی پر جاکر اس نے گہری گہری سانسیں لیں اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.