Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اذان

MORE BYقاسم خورشید

    ستر سال کے رام دین بابو کو اچانک امام صاحب کے گزر جانے کا بہت دکھ تھا۔

    کشن پور گاؤں کے باہر بنی مسجد اس اطراف میں مشہور ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ جب کبھی مسافر راستہ بھول جاتا ہے تو کچھ دیر بھٹکنے کے بعد مسجد کا گنبد یا مینار نظر آنے لگتا ہے تو گویا منزل مل جاتی ہے۔

    کشن پورکے آس پاس دور دور تک کھیت کھلیان ہیں۔ کافی دوری پر چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں۔ وہاں سے ٹرینیں بھی گزرتی ہیں۔ بسیں آتی جاتی ہیں، مگر اب بھی سارے گاؤں ایک دوسرے سے نہیں جڑ پائے ہیں۔ پیدل چلنے کی روایت ابھی ٹوٹی نہیں ہے۔ دور تک کھیتوں اور پگڈنڈیوں کے سلسلے ہیں۔ بھیڑ بکریوں اور دوسرے مویشیوں کے جھنڈ کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سورج تو آج بھی دور کھلیانوں میں ڈوبتا ہے۔ اندھیرا ہونے پر مسجد کے مینار کی ہلکی روشنی میل کا پتھر بن جاتی ہے۔

    کشن پور گاؤں کے پورب میں ایک چھوٹا سا تالاب ہے۔ تالاب کا پانی بہت صاف ہے۔ اس لیے لوگ اسنان دھیان کے لیے بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔ کرواچوتھ یا چھٹ کے وقت اس کے چاروں طرف خوب صفائی کی جاتی ہے۔ اس صفائی میں گاؤں کے نوجوان آگے آگے رہتے ہیں چاہے پنڈت دیا رام شرما کا لڑکا شیکھر ہو، دینو جی کا بیٹا بنسی یا امام صاحب کا لڑکا شاہد علی۔ ایسے موقعوں پر یہ مل جل کر پورے گاؤں میں ایک ماحول بنا دیتے ہیں۔ ایسا ہونے سے دوسرے نوجوانوں کا حوصلہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

    رام دین بابو گاؤں کے ایک خوش حال کسان ہیں، اور دل بھی اتنا بڑا ہے کہ ہر بھے کام کو کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی سیوا پیش کر دیتے ہیں۔

    گزشتہ چند برسوں میں رام دین بابو نے پورے گاؤں کے بیرونی حصہ میں مسجد کا کام جاری تھا۔ کسان مزدور دن رات کام کر رہے تھے۔ مینار بنانے کے لیے تھوڑی اور زمین کے ساتھ اینٹوں کی بھی ضرورت تھی چندا اگاہی کا کام جاری تھا۔ کسی طرح مینار کا آدھا کام ہوا۔ اس کے بعد پیسوں کی کمی کی وجہ سے کام بند ہو گیا۔

    امام صاحب رام دین بابو کے برآمدے میں دیر تک بیٹھتے۔ دکھ سکھ کی باتیں ہوتیں۔ دونوں کا رشتہ خاصا پرانا ہو چکا تھا۔ ایک دن رام بابو نے امام صاحب سے پوچھا۔

    ’’کیا بات ہے امام صاحب، مسجد کا مینا ادھورا کیوں ہے؟‘‘

    امام صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔ ’’بات یہ ہے رام دین بھائی کہ پیسے ختم ہو چکے ہیں۔ مزدوری تو کسی طرح دی جا سکتی ہے۔ لوہے کا چھڑ، بالو، سیمینٹ وغیرہ بھی بچا ہوا ہے لیکن کم سے کم دس ہزار اینٹوں کی ضرورت ہے۔

    رام دین تھوڑی دیر تک چپ رہے۔ اس کے بعد بولے۔ ’’امام صاحب اگر آپ چاہیں تو ہم دس ہزار اینٹوں کا انتظام کر دیں؟ دھرم کا کام ہے پونیہ ملےگا۔

    امام صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’آپ نے صرف ایک روپیہ میں مسجد کے لیے اپنی لگ بھگ ایک بیگہہ زمین دے دی، جبکہ اس سے آپ لاکھوں کما سکتے تھے۔ اتنا ہی نہیں مسجد کے باہر پھیلی ہوئی زمین میں، آپ نے مکان اس لیے نہیں بنوایا کہ دور سے مسجد کا حصہ چھپ جائےگا۔ کیا اتنا ثواب کم ہے؟‘‘

    ’’ایسا ہے امام صاحب کہ گاؤں میں یہ مسجد ہم سب کی شان ہے۔ ایک پہچان ہے۔ ہمیں اچھا لگتا ہے اس لیے یہ سب کرتا ہوں۔ آپ نے اپنے لڑکے کو حافظ بنایا ہے لیکن جب ہمارا کوئی آیوجن ہوتا ہے تو شاہد میاں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ بولیے ایسا ہے کہ نہیں؟، ’لیکن رام دین بابو کوئی اتنی بڑی قربانی نہیں دیتا ہے۔ اب لوگ پیسے کے لیے اپنے خون تک کو نہیں چھوڑتے ہیں۔ ’امام صاحب، دنیا کچھ ہی لوگوں سے چل رہی ہے، برائی کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ اچھائی کی کوئی سیما نہیں ہوتی ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ جب نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلتے ہیں تو گھنٹہ بھر سے انتظار کرنے والوں میں پانی پھونکنے سے پہلے کیا آپ دیکھتے ہیں کہ یہ رام دھن چور کی بیوی یا کلو دلال کی بیٹی اپنے بیمار بچے کی صحت کے لیے پانی دم کروانے آئی ہے؟ آپ ان کے گھر والوں کی برائیوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے ہیں۔ بس پانی دم کر دیتے ہیں۔

    امام صاحب رام دین بابو کو دھیان سے سنتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ’’سمجھ گیا آپ اینٹ دے کر رہیں گے‘‘۔ دونوں زور سے ہنسے اور پھر رام دین اچانک سیریس ہو کر کہتے ہیں۔

    ’’اس بار دس ہزار اینٹوں کے دس روپے لوں گا۔ کاروباری آدمی ہوں‘‘۔

    ہنسی اور تیز ہو جاتی ہے۔ پھر رسمی طور پر محض دس روپے لے کر رام دین بابو حسب ضرورت اینٹیں دے دیتے ہیں اور پھر ادھورے مینار کا کام پورا ہو جاتا ہے اور دور دراز کے لوگ اسے دیکھنے کشن پور ضرور آتے ہیں۔

    رام دین اور امام صاحب کی گہری دوستی ایک مثال بن گئی۔ کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں۔ نفرت یا بھید بھاؤ نے کبھی کشن پور کے مکینوں کو چھوا ہی نہیں۔ امام صاحب اور رام دین بابو کی دوستی کا دوسرے بعض لوگوں سے زیادہ اثر امام صاحب کے بیٹے شاہد علی پر پڑا تھا۔ شاہد علی ایک مدرسہ چلاتے ہیں لیکن کسی نہ کسی بہانے روز بچوں کو دونوں کی دوستی کے بارے میں بتانے سے نہیں چوکتے تھے۔ امام صاحب نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہوگیا تو رام دین چاچا کا ضرور خیال رکھنا۔ حالانکہ اس وصیت سے پہلے سے ہی شاہد علی رام دین بابو کو دل و جان سے چاہتے تھے۔ جب کوئی چھوٹا سا موقع بھی ملتا تو خدمت کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔ رام دین کے لڑکوں کا بھی کچھ یہی حال تھا۔

    فجر کی اذان خود امام صاحب دیا کرتے تھے۔ یہ آواز چاروں طرف کچھ ایسے پھیلا کرتی تھی، جیسے سب کے اندر ترنگیں پھوٹ رہی ہوں۔ بہتوں کی طرح رام دین بابو کو بھی امام صاحب کی آواز بہت بھلی لگتی تھی۔ صبح کی اذان کی آواز سن کر ہی رام دین جگا کرتے تھے۔ چاہے کوئی موسم ہو اس وقت تالاب میں اسنان کرتے تھے پھر اسی جگہ چھوٹے مندر میں پوجا پاٹھ کرتے۔ سورج کو نمسکار کرنے کے بعد گھر لوٹ آتے۔ تب تک امام صاحب بھی ڈیوڑھی میں آکر رام دین کے کھیتوں اور مویشیوں کو نہارتے رہتے۔

    رام دین بابو کے لوٹنے کے بعد ان کا لڑکا چائے بنا کر دونوں کے سامنے رکھ دیتا۔ پھر گھر بار کھیتی باڑی کی باتیں شروع ہوتیں۔ دونوں میں دلچسپ چھیڑ چھاڑ بھی ہو جاتی۔

    اچانک امام صاحب کے گزر جانے کا سب سے زیادہ اثر رام دین بابو پر ہوا۔ اب کیا ہوگا؟ اس عمر میں جینے کا انداز بھی تو نہیں بدلا جا سکتا ہے۔ روز کی طرح صبح امام صاحب سے ان کی باتیں ہوتی تھیں۔ دونوں گاؤں کے باہر پیپل کے پیڑ کے نیچے ایک چبوترا بنانے کی یوجنا تیار کر چکے تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد امام صاحب پر دل کا دورہ پڑا۔ کسی کو خدمت کا موقع نہیں دیا اور چپکے سے گزر گئے۔ شام میں انہیں پاس کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ رام دین بابو تو ڈیوڑھی میں بیٹھ کر بس ایک ٹک مسجد کو دیکھتے رہے۔ پھر شاہد علی خود ان کے پاس آیا اور لپٹ کر زور زور سے رونے لگا۔ انہوں نے شاہد علی کو صبر کرنے کے لیے کہا لیکن دونوں کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ پھر شاہد علی ہی رام دین کو سمجھانے لگے۔

    ’’ابا تو گزر گئے۔ اب آپ بھی اس طرح ٹوٹ جائیں گے تو پھر ہمارے سر پر کسی کا سایہ رہ جائےگا؟‘‘

    شاہد علی کی باتیں سن کر رام دین بابو بولے، ’’نہیں بیٹا، میں تیرے باپ کی طرح نہیں ہوں۔ میں تو ڈٹ کر زندہ رہوں گا۔۔۔ میں پھر دونوں گلے مل کر دیر تک روتے رہے جی کچھ ہلکا ہوا تو شاہد علی کو رام دین کے بیٹے نے گھر پہنچا دیا اور بابوجی کو بھی سمجھا بجھا کر سلانے کی کوشش کرنے لگے۔

    رام دین بابو نے بظاہر آنکھیں بند کر لیں۔ گھر والوں نے سمجھا کہ اب سو جائیں گے۔ سبھی دھیرے دھیرے وہاں سے ہٹ گئے۔ اس رات رام دین بابو سو نہیں سکے۔ امام صاحب کے ساتھ گزرے ہوئے دن یاد آتے رہے۔ پچاس برسوں کا رشتہ کوئی معمولی رشتہ تو نہیں تھا۔ پہاڑ جیسی رات۔ جس کی صبح میلوں لمبی ہو گئی تھی۔ رام دین بابو بیچ بیچ میں اٹھ کر ستاروں کی گردش کو دیکھتے۔ صبح ہونے میں دیر تھی۔ بےچین ہو کر ڈیوڑھی میں آکر ہی بیٹھ گئے۔ انہیں ایسا احساس ہو رہا تھا کہ بس امام صاحب ابھی مسجد سے لوٹ کر آئیں گے اور ان سے باتیں کریں گے۔ پھر انہیں صبح کی اذان کا خیال آیا۔ امام صاحب تو گزر گئے اب صبح کی اذان کون دےگا؟ دھیرے سے اٹھے، لالٹین لے کر امام صاحب کے گھر کی طرف بڑھنے لگے۔ ان کے دروازے پر پہنچنے کے بعد کچھ دیر تک خاموش کھڑے رہے۔ چاروں طرف گہرا سناٹا تھا۔ پھر انہوں نے شاہد علی کو بلایا۔ شاہد بھی جگ ہی رہے تھے، فوراً باہر آ گئے۔ رام دین چاچا کو اس وقت دیکھ کر ایک دم پریشان ہو گئے۔ پوچھا:

    ’’کیا ہوا چاچا مجھ کو بلا لیا ہوتا‘‘۔

    رام دین بولے۔ ’’کچھ نہیں بیٹا، سب ٹھیک ہے۔ بس ایک بات پوچھنے آیا ہوں‘‘۔

    ’’بولئے ۔۔۔ چاچا۔۔۔‘‘

    بہت الجھن ہوکر رام دین چاچا نے کہا۔ ’’بیٹا امام صاحب تو گزر گئے۔ تم جانتے ہو صبح کی اذان بھی وہی دیتے تھے۔ مگر اب یہ اذان کون دےگا؟ یہی چنتا تھی۔۔۔‘‘

    لمحے بھر کے لیے شاہد علی پر سکتہ طاری ہو گیا۔ پھر انہوں نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ اٹھایا۔ بہت کچھ بولنے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ بول نہیں پائے۔ رام دین چاچا نے ہاتھ تھام لیا۔ آنکھوں میں ایک سیلاب ابھرنے لگا۔ شاہد نے بھرائی ہوئی آواز میں اتنا ضرور کہا۔’’کون کہتا ہے چاچا کہ انسان مر چکا ہے۔ آپ جیسا کوئی ایک آدمی بھی زندہ رہا تو دنیا چلتی رہےگی۔ آپ پوچھ رہے تھے نا کہ اب صبح کی اذان کون دےگا؟ تو چچا آپ مت گھبرائیے۔ اب یہ کام میں کروں گا۔ میری آواز آپ کو جگایا کرےگی۔‘‘

    رام دین بابو کے من کا بوجھ جیسے ہلکا ہو گیا اور اپنے گھر لوٹ آئے۔

    کچھ دیر بعد شاہد علی صبح کی اذان دے رہے تھے۔ رام دین بابو کو سن کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ امام صاحب پھر سے جی اٹھے ہیں۔ انہوں نے دیر تک اذان سنی اور پھر روز کی طرح پاس والے تالاب میں اسنان کرنے کے لئے باہر نکل گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے