Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آزادی کا گمنام سپاہی بطخ میاں

ناصرہ شرما

آزادی کا گمنام سپاہی بطخ میاں

ناصرہ شرما

MORE BYناصرہ شرما

    جاڑے کی رات۔ کھانا ختم ہوا۔ لحاف کے اندر دادی نے جب اپنے پیر گرم کیے توانہیں گھیر کر سارے بچے بیٹھ گئے اور کہانی سنانے کا اصرار کرنے لگے۔ دادی نے سب سے چھوٹے پوتے کو گود میں بٹھایا اور ہمیشہ کی طرح کہا بیچ کہانی میں کوئی نہیں بولے گا۔

    جی دادی۔۔۔ کئی آوازیں ایک ساتھ گونجیں اور دادی نے اپنے خاص انداز سے قصہ کہنا شروع کیا۔۔۔ ایک تھا ایک نہیں تھا خدا کے علاوہ کوئی نہ تھا۔

    آج سے بہت سال پہلے ایک بطخ میاں ہوا کرتے تھے۔ ابھی دادی نے اتنا ہی کہا تھا کہ کچھ بچوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ دادی نے انہیں گھورا اور کہانی آگے بڑھائی۔

    بطخ میاں انصاری کہنے کو انگریزوں کے خانساماں تھے۔ مگر وطن کی محبت سے ان کا دل لبریز تھا۔ وہ مشرقی چمپارن کے سسواں گاؤں کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر مہاتما گاندھی کی جان بچائی تھی۔ یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔

    وہ کیسے دادی جان؟ چھوٹی چمپا بول اٹھی۔ سب نے ڈر کر دادی کو دیکھا مگر دادی جان کو غصہ نہیں آیا اور انہوں نے بڑے پیار سے چمپا کو دیکھ کر کہا۔

    یہ قصہ ہوگا 15 اپریل 1917 کا جب مہاتما گاندھی انگریزوں اور مل مالکوں کے ذریعہ کسانوں پر ڈھائے جارہے ظلم کا جائزہ لینے کے لیے چمپارن آئے تھے۔ مہاتما گاندھی کی مقبولیت دیکھ کر انگریز گھبرا گئے اور انہوں نے گاندھی جی کو قتل کرنے کی سازش رچ ڈالی۔ انگریز کلکٹر نے بطخ میاں کو حکم دیا کہ وہ گاندھی جی کے دودھ میں زہر ملا کر انہیں پینے کو دیں۔ یہ حکم سن کر بطخ میاں کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ ایک طرف مالک کا حکم دوسری طرف وطن کا پیار۔ بس بطخ میاں نے دل ہی دل میں فیصلہ لے لیا۔

    ’’وہ کیسے دادی؟“ امجد کا گلا ڈر سے سوکھ گیا اور وہ منع کرنے کے باوجود پوچھ بیٹھا۔

    ’’تم لوگوں کو کہانی سننے کا جب سلیقہ نہیں ہے تو پھر کیوں سنتے ہو؟

    دادی خفا ہوگئیں۔ اس طرح مزہ کر کرا ہوتا دیکھ کر سب نے امجد کو گھورا۔ امجد شرمندہ ہوا منہ ٹکا کر بیٹھ گیا۔

    ’’کہانی کا لطف لو، صبر کرو۔۔۔ ہر چیز میں جلدی۔۔۔ دادی کا موڈ خراب ہوچکا تھا۔

    ’’دادی۔۔۔ مجھے معاف کردیں۔۔۔ امجد نے دادی کو منایا۔ کچھ دیر دادی چپ رہیں پھر کہنے لگیں۔

    ’’بطخ میاں نے مالک کا حکم مانااور دودھ میں زہر ملا دیا اور جب گاندھی جی دودھ پینے کے لیے گلاس اٹھانے لگے تو بطخ میاں نے اصلیت گاندھی جی سے کہہ دی۔ یہ سن کر مہاتما گاندھی نے گلاس الٹ دیا۔ دودھ پھیل گیا۔ انگریزوں کو سمجھتے دیر نہ لگی کہ یہ حرکت بطخ میاں کی ہے۔ اس وقت وہاں ڈاکٹر راجندر پرساد بھی موجود تھے۔ جو بعد میں صدر جمہوریہ ہند بنے۔ بطخ میاں سے ناراض انگریز کلکٹر نے انہیں جیل میں ڈال دیا۔ اور مقدمہ چلا کر ان کی ساری زمین وجائیداد نیلام کر دی اور انہیں اور ان کے خاندان کو بھوکا تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا۔“ دادی اتنا کہہ کر کچھ پل ٹھرکیں۔ سب نے پہلو بدلا۔ پھر ٹھنڈی سانس لے کر بولیں۔ ’’زمانہ بدلا ہمارے غلام ملک کو آزادی ملی۔ جب ڈاکٹر راجندر پرساد آزاد ہندوستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے بدحال بطخ میاں کو 1950 میں 150 ایکڑ زمین دینے کے لیے بہار حکومت سے کہا تاکہ وہ آرام و سکون سے رہ سکیں مگر ایسا نہ ہوا اور 1957 میں بطخ میاں کا انتقال ہوگیا۔ سسواں اجگری گاؤں میں ہی ان کا مزار ہے۔“

    اتنا کہتے کہتے دادی نے آنکھوں میں بھرے آنسوؤں کو پونچھا۔ سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

    ننھے دلوں میں سوال اٹھ رہے تھے۔ مگر دادی کی اداسی دیکھ کر کسی کی ہمت زبان کھولنے کی نہیں پڑ رہی تھی۔ دادی نے ٹھنڈی سانس بھری اور جسےد اپنے سے کہا ہو۔

    ’’یہ گمنام مجاہد آزادی گمنام ہی رہا۔ اس نے کسی لالچ میں اپنا فرض نہیں پورا کیا تھا۔ وہ تو وطن کی محبت کا جذبہ تھا بعد میں چمپارن کے یورپی نیل کاشتکاروں کے خلاف کسان تحریک میں وہ تنم بار جیل گئے اور جو بھی پاس بچا تھا اس کو بھی گنوانا پڑا۔“

    کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ دادی کے چہرے پر معصوم نظریں ٹکی تھیں۔ دادی نے محسوس کیا اور ہلکی سی مسکرائیں اور بولیں۔

    ’’فدا کاری رنگ لائ ہے۔ آج برسوں بعد ہم انہیں یاد کر رہے ہیں یہی کیا کم ہے“ دادی کے اس جملے کو سن کر امجد کو محسوس ہوا کہ وہ اس فداکاری کی کہانی کو اپنے ساتھیوں کو سنائے گا اور دل ہی دل میں یہ فیصلہ لیا کہ وہ اپنے وطن کے لیے بطخ میاں انصاری کی طرح ہی کوئی بڑا کام انجام دے گا جس سے لوگ اسے موت کے بعد بھی یاد کریں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے