آزادی کے گمنام سپاہی مولانا احمد اللہ شاہ
آج دادی جان بہت خوش تھیں۔ ان کی دونوں بیٹیاں کچھ دنوں کے لیے ان کے پاس آئی تھیں۔ ان کے بچے نانی جان۔۔۔ نانی جان کہہ کر ان کی جان کھائے رہتے تھے۔ ادھر دادی کے پوتے پوتیاں اتنے دنوں بعد آئیں پھوپھیوں سے لاڈ کروانے میں آگے تھے۔ غرض کہ گھر میں ہر دم شور شرابا رہتا اور لذیذ پکوان بنتے۔ بچوں کو یہ دیکھ کر تعجب بھی ہوا اور ہنسی بھی آئی جب بڑی پھوپھی اور چھوٹی پھوپھی ٹھیک ان کی طرح ضد پر اتر آئیں کہ اماں آج کہانی سنادو وہی والی جس میں لکھنؤ کی حضرت محل گھوڑے پر بیٹھ کر جنگ لڑتی تھیں۔
ارے چپ بھی رہو۔۔۔ اس عمر میں یہ چونچلے؟ دادی نے کہا۔ مگر وہ دونوں بیٹیاں ان سے چھوٹی بچیوں کی طرح لپٹ گئیں۔ موقع دیکھ کر سارے پوتا۔ پوتی نواسا نواسی تینوں کو گھیر کر بیٹھ گئے اور لگے نعرہ لگانے۔
دادی آج کہانی سن کر رہیں گے۔۔۔ نانی ہم کہانی سن کر رہیں گے۔ اسی شور میں ان کی مائیں بھی شامل ہو گئیں۔ اماں آج کہانی سن کر رہیں گے۔ یہ دیکھ کر دادی کے بیٹے اور بہوئیں بھی ہنستے ہوئے کمرے میں داخل ہو گئیں۔
اچھا بابا سناتی ہوں۔ مگر ہاں بیچ میں سوال نہ کرنا۔ دادی نے بڑی شفقت سے اپنی پھلواری کو دیکھا اور کہانی کہنا شروع کر دی۔
آزادی کے متوالوں کا زمانہ تھا۔ آگرہ اور اودھ کا علاقہ اس سلسلے سے سب سے آگے تھا۔ ہندوستان میں مولوی، پنڈت سب پر ایک ہی نشہ طاری تھا کہ ہم کو آزادی لینا ہے۔ غلامی سے چھٹکارا پانا ہے۔ انگریز افسران ہندو مسلمان کے اعتماد اور دوستی سے خاصے پریشان تھے۔ گہری سوچ میں ڈوبے رہتے کہ کس طرح ان دونوں بھائیوں میں فساد کا بیج بودیں۔ دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا کر کے آپس میں لڑوا دیں مگر افسوس ان کی ہر چال ناکام ہوتی۔ لکھنؤ کے نواب واجد علی شاہ تو کلکتہ میں نظر بند تھے اور بیگم حضرت محل انگریزوں کے خلاف عام انسانوں کے دلوں میں بغاوت کی بارود بھرنے میں جٹ گئیں۔ محل کا آرام اور موت کا خوف دل سے نکال کر وہ بی بی مردانا بن گھوڑے پر سوار جنگ کرنے سے بھی نہ پیچھے ہٹی یہ دیکھ کر مردوں کے کلیجہ گز گز بھر کر ہو گئے اور صاحب اودھ میں عوام نے مورچہ سنبھال لیا۔ اتنا کہہ کر دادی جان نے پہلو بدلا تو دونوں بیٹوں نے فوراً انکا پیر دبانا شروع کر دیا۔
جس طرح اکیلا چنا بھاڑ نہیں بھونج سکتا ویسے ہی ایک انسان گھر میں امنیت اور ملک کو غلامی سے آزاد نہیں کر سکتا ہے۔ یہ بات جب مولانا احمد شاہ کے سمجھ میں آئی تو وہ بیگم حضرت محل کی مدد کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھیں اور عوام میں جوش و خروش بھرنے لگیں۔ فیض آباد میں مولانا تھے تو فیض آباد اور رائے بریلی میں رانا بیڑی مادھو سنگھ کی فوجی طاقت بیگم حضرت محل کو دونوں آنکھیں مل گئیں تھیں۔ ہندو مسلمان کی کوششیں رنگ لانے لگی اور انگریز بوکھلانے لگے۔ جانے کتنے کسانوں کے بدولت 1858 کے آخر تک جھانسی اور لکھنؤ میں بغاوت کا جوش کم نہیں ہو پایا تھا اور انگریزوں کا دھیان لکھنؤ سے فیض آباد کی طرف مڑ چکا تھا اور وہ باغیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے طرح طرح کی لالچ دے رہے تھے۔ مولانا انگریز فوج سے لڑتے وقت زخمی ہوئے تو انہیں اسپتال بھیج دیا گیا۔ پھر انہیں پھانسی کی سزا جیل میں بند کر دیا گیا مگر اس فیصلہ کے خلاف جب انگریزوں کے ماتحت ہندوستانی فوج میں بھی بغاوت پھیل گئی تو مجبوراً انگریز افسران نے مولانا کو آزاد کر دیا۔ مولانا پھر آزادی کی سرگرمی میں جٹ گئے اور کسی سادھو سنت کی دی سیکھ پر عمل جاری رکھا کہ سینے میں سانس رہنے تک ناانصافی کو ہرگز قبول نہ کرتا۔ انگریز ان کی دلیری دیکھ کر انہیں مشیر کہتے تھے اور ان کے سر کی قیمت پچاس ہزار لگائی تھی۔ مولانا صاحب جب انگلستان گئے تو کوین وکٹوریا نے خود ان کا خیرمقدم کیا اور ان کی طرف سے آئی یہ پیشکش انہوں نے ٹھکرا دی کہ وہ ارکارٹ کی ریاست کے حاکم بننا قبول کریں۔ ہندوستان لوٹ آئے۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے شاہجہاں پور کے راجا کو انگریزوں کے خلاف جنگ کے پلے مدد کے لئے لکھا۔ اس خط پر بیگم حضرت محل کی شاہی مہر تھی۔ خط پاکر جنگ سے خوفزدہ راجا جگناتھ کے دفاع میں مولودی صاحب کا سر انگریزوں کو سونپ دینے کا خیال آیا۔ اوپر سے اس نے پیغام کہلایا کہ وہ مولانا سے ملنے کو راضی ہیں۔ (دادی نے لمبی سانس لی)
15 جون 1857 کو جب مولوی صاحب راجا سے ملنے گئے تو دیکھا شہر کا دروازہ بند ہے اور فوجیں تعینات تھیں وہ سارا ماجرا سمجھ گئے اس مڈبھیڑ میں راجا کے بھائی کنور بلدیو سنگھ نے ان کا قتل کر دیا اور ان کا سر کاٹ کر انگریزوں کے حوالے کر دیا جس کو پاکر انگریز خوشی سے پھولے نہ سمائے اور ان کا سرشاہ جہاں پور میں کوتوالی کے دروازہ پر ٹانگ دیا تاکہ لوگ ان کے انجام سے سبق لیں اور پھر کبھی انگریزوں کے خلاف سر اٹھانے کی جرأت نہ کر سکیں۔ اتنا کہہ کر دادی چپ ہو گئیں۔ کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سب کا دل اداس ہو گیا تھا۔ دادی نے اپنی ادھوری کہانی پھر کہنی شروع کی۔
مگر جنگ آزادی کہاں رکنے والی تھی۔ ان کی شہادت نے لوگوں کے دلوں میں آزادی کی قندیلیں روشن کی اور آزادی لے کر رہے۔
کہانی ختم ہو گئی۔ سب اپنے اپنے بستروں پر اڑے ترچھے ہوکر سو گئے مگر سہیل کے دل میں تڑپتا یہ سوال اس کو جگائے رکھا کہ اتنی قربانی کے بعد مسلمانوں نےکیا حاصل کیا؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.