بڑا کون
وہ بڑی تیزی سے سپاٹ چکنی سڑک پر چلی جا رہی تھی۔ چل کیا رہی تھی۔ سمجھو اڑ رہی تھی۔ نئی نویلی۔ زرد سبز اور سفید رنگوں سے سجی۔ وہ ایک بس تھی۔
صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بس میں سوار مسافر نرم گدے والی سیٹوں پر نیم دراز میٹھی نیند کا مزا لے رہے تھے۔ ڈرائیور ٹیپ ریکارڈ پر بجتے ہوئے فلمی گیتوں کا لطف لیتے ہوئے آہستہ آہستہ خود بھی گنگنا رہا تھا۔
ایک موڑ سے گزرتے ہی ریل کی پٹریاں سڑک کے ساتھ ساتھ بچھی ہوئی نظر آئیں۔ بس نے دیکھا دھیمی رفتار سے ایک ریل پٹریوں پر چل رہی ہے۔
ریل نے بھی اسے دیکھ لیا۔ بولی۔ ’’ہیلو! آداب بس بہن۔‘‘
’’آداب۔‘‘ بس نے جواب دیا۔
ریل نے پوچھا ’’پہلی مرتبہ ادھر آئی ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ بس نے گردن اکڑاکر کہا۔ ’’ادھر ہی کیا۔۔۔ کہیں بھی پہلی مرتبہ چلی ہوں۔ دیکھتی نہیں ہو؟ میرا رنگ و روپ کتنا اجلا ہے۔ کیسی چم چما رہی ہوں۔ ابھی دوروز قبل ہی میرا جنم ہوا ہے۔ میری طرح خوبصورت کوئی اور نہ ہوگا۔‘‘
ریل نے کہا ’’صحیح ہے۔ بے حد خوبصورت ہو تم!‘‘
اپنی خوبصورتی کی تعریف سن کر بس اور زیادہ تیزی سے دوڑنے لگی۔ ریل نے کہا: ابھی کچھ دور اور ساتھ چلنا ہے ہمیں۔ باتیں کرتی چلو تو دل بہلا رہےگا۔‘‘
’’اتنی باتیں تم سے کر لیں۔ یہی بہت ہوا، ورنہ تمہارا میرا کیا میل؟ میں خوبصورت رنگ رنگیلی۔۔۔ تم لال کالی میلی۔‘‘ بس نے غرور سے کہا۔
’’ایسا بھی کیا گھمنڈ بہن کہ بات بھی نہ کرو۔ میں تم سے رنگ و روپ میں کم ضرور ہوں مگر میری اپنی ایک حیثیت ہے۔‘‘ ریل نے سادگی سے کہا۔
’’تمہارا وجود تمہاری حیثیت کس کام کی؟‘‘ بس نے کہا میری رفتار کا تم مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ میں اڑ رہی ہوں، تم گھسٹ رہی ہو۔‘‘
’’میں کیا کروں؟‘‘ ریل نے بے بسی سے کہا ’’کتنے سارے ڈبے ہیں میرے۔ ان میں ٹنوں سامان لدا ہوا ہے۔ میں مال گاڑی ہوں نا۔ اتنا بوجھ ڈھونے میں رفتار تو دھیمی ہی رہےگی۔‘‘
’’یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ بوجھ ڈھونے سے کوئی برا نہیں بن جاتا۔ میں تیز رفتار ہوں۔ تیز رفتاری سے چلنے والوں کو پسند کرتی ہو۔ تم اپنی پٹری چلو، میں اپنے راستے چل رہی ہوں۔‘‘
’’تمہاری مرضی!‘‘ ریل افسردہ ہو کر بولی ’’نہ بولو مجھ سے مگر میں تم سے بڑی ہوں۔ بہت زمانہ دیکھا ہے میں نے۔ یہ ضرور کہوں گی کہ گھمنڈ کرنا اچھی بات نہیں۔ پھر رنگ و روپ تو وقت کے ساتھ تمہارا بھی نہ رہےگا۔‘‘
بس ہنس پڑی۔ بولی ’’اب کچھ نہ سوجھا تو نصحیت کرنے لگیں۔ بھلا مجھے نیچا کون دکھا سکتا ہے؟ کون مجھے روک سکتا ہے؟ کم سے کم تم میری برابری نہیں کر سکتیں۔ وہ دیکھو سامنے موڑ آ رہا ہے۔ چلو پیچھا چھوٹا تم سے۔‘‘
اتنا کہہ کر بس تیزی سے مڑ گئی۔ دل ہی دل میں ہنس رہی تھی کہ خوب لٹاڑا کالی کلوٹی کو۔ اچانک اسے رک جانا پڑا۔ سامنے ریل کا پھاٹک تھا۔ وہ پھاٹک کے قریب پہنچی تھی کہ پھاٹک بند ہو گیا۔ وہ خیالات کی دنیا سے باہر نکل آئی۔ ریل کے انجن کی سیٹی سنائی دے رہی تھی۔ پھر اسے دھیمی رفتار سے چلتی ہوئی مال گاڑی سامنے سے آتی نظر آئی۔ جیسے ہی اس کی نظر بس پر پڑی، اس نے کہا ’’خدا حافظ بس بہن، پھر ملیں گے۔‘‘ اور آگے بڑھ گئی۔
بس گن رہی تھی۔ ایک ۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ دس۔ گیارہ اکیس ڈبے۔۔۔ اور دل میں سوچ رہی تھی کہ کتنی انکساری سے ریل نے اسے سے رخصت لی۔ طعنہ نہیں مارا کہ ’’لو دیکھو، میں کالی کلوٹی ’پرانی کھوسٹ ہوں، پھر بھی میری وجہ سے تمہیں رک جانا پڑا۔‘
وہ چاہتی تو کہہ سکتی تھی کہ ’’بتاؤ بڑا کون ہوا؟ میں یا تم؟‘‘ مگر اس نے کچھ نہیں کہا۔
بس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا کہ وہ بڑا وہ ہوتا ہے جو دل سے بڑا ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.