Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بڑا شیرو اور چھوٹا شیرو

صباحت فردوس

بڑا شیرو اور چھوٹا شیرو

صباحت فردوس

MORE BYصباحت فردوس

    ایک خوبصورت سے جنگل میں ایک چڑیا اپنے دو بچوں کے ساتھ ایک گھونسلے میں رہا کرتی تھی۔ چڑیا کا گھونسلہ برگد کے بڑے سے پیڑ پر بنا تھا۔ چڑیا نے اپنے ننھے منے بچوں کے نام بڑا شیرو اور چھوٹا شیرو رکھا تھا۔ چڑیا نے اپنے بچوں کا یہ نام کیوں رکھا تھا؟ کیونکہ چڑیا چاہتی تھی کہ اس کے دونوں بچے جنگل کے راجا شیرو کی طرح بنیں۔ لیکن کیا سچ مچ چڑیا کے دونوں بچے شیر کی طرح بہادر تھے؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔ چڑیا کے دونوں بچے بڑے ڈرپوک تھے۔ انہیں اس دنیا میں آئے کتنے دن ہوگئے تھے مگر انہوں نے ابھی تک اڑنا نہیں سیکھا تھا۔ بڑا شیرو اس معاملے میں تھوڑا بہتر تھا۔ وہ گھونسلے میں ہی ادھر ادھر چکر لگا لیا کرتا تھا مگر چھوٹا شیرو!! اف وہ تو انتہائی بزدل تھا۔ اور بڑا سست بھی تھا۔ دن بھر ایک ہی جگہ پڑا رہتا تھا۔ بیچاری چڑیا خوب محنت کر کے ان کے لئے غذا کا بندوبست کرتی تھی۔ لیکن وہ دونوں دن بہ دن سست ہوتے جارہے تھے۔ آخر ایک دن چڑیا نے تنگ آکر ان سے کہا۔

    ’’تم دونوں اڑنا کب سیکھوگے؟ میں تھک جاتی ہوں روز تمہارے لیے کھانا لاتے لاتے۔ اب تو تمہارے پر بھی نکل آئے ہیں لیکن تم دونوں کاہل بنتے جارہے ہو۔ دیکھو وقت سے پہلے اڑنا سیکھ لو ورنہ کسی دن تم پر بہت بڑی مصیبت آجائے گی اور اس وقت تمہارے پسا پچھتانے کا بھی موقع نہیں رہے گا۔‘‘

    چڑیا ان سے کہتی رہی مگر مجال ہے جو دونوں نے اس کی بات پر کان دھرا ہو۔

    بس مزے دے وہ دونوں دانے کھاتے رہے۔

    اور چڑیا انہیں دیکھتی رہی۔

    آخر دن گزرتے رہے اور بڑے شیرو اور چھوٹے شیرو دونوں ہی سستی اور کاہلی کی نیند سوتے رہے۔ ان دونوں نے اپنے آپ کو اڑنے کے لئے تیار کیا ہی نہیں۔

    ایک دن اچانک برگد کے پیڑ پر ہلچل مچ گئی۔

    ایک دوسری چڑیا ہانپتی کانپتی بڑے شیرو اور چھوٹے شیرو کی ماں کے پاس آئی اور کہنے لگی۔

    ’’چڑیا بہن تم جلدی سے اپنے بچوں سمیت یہاں سے بھاگ جاؤ۔ کیونکہ اس درخت پر ایک زہریلے سانپ نے بسیرا کر لیا ہے اور وہ کسی بھی وقت تمہارے بچوں اور تم پر حملہ کر سکتا ہے۔ میں بھی اس برگد کے درخت سے دور اپنا آشیانہ بنانے جارہی ہوں۔‘‘

    چڑیا، دوسری چڑیا کی بات سن کر پریشان ہو کر بولی۔

    ’’لیکن میرے بچوں نے تو ابھی اڑنا بھی نہیں سیکھا۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔!!! ہمارے پاس بس ایک ہی راستہ ہے کہ ان کے اندر کا ڈر نکال کر انہیں اڑا دیا جائے۔ میں تمہارے بچوں کو دھکا دے کر انہیں آسمان میں اڑنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘ دوسری چڑیا نے کہا۔

    ’’لیکن اگر انہیںکچھ ہوگیا تو۔۔۔؟‘‘

    ’’دیکھو چڑیا بہن ہمارے آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے اگر تم اس بات پر عمل نہیں کروگی تو تم خود بھی سانپ کی غذا بن جاؤگی۔‘‘

    دوسری چڑیا کی بات سن کر چڑیا بے حد پریشان تھی۔ آخر اس نے دوسری چڑیا کو اجازت دے دی کہ وہ جو چاہے کرے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا اور اس سب کی واحد وجہ اس کے بچوں کی کاہلی تھی۔

    اب وہ دونوں بچے گھبرانے لگے کیونکہ انہوں نے وقت سے پہلے اپنے آپ کو تیار نہیں کیا تھا۔ آخر دوسری چڑیا نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر انہیں گھونسلے کے کنارے کھڑا کردیا۔ بڑا شیرو آسمان کی بلندیوں کو دیکھ رہا تھا۔ چونکہ وہ چھوٹے شیرو کے مقابلے زیادہ سست نہیں تھا اس لیے دھکا دینے پر وہ آسمان میں اڑ گیا مگر چھوٹے شیروں کو دھکا دینے پر وہ سیدھا زمیں پر جاگرا۔ کیونکہ اس نے اڑنے کے لئے کوشش بھی نہیں کی تھی اور پہلے سے ہی یہ گمان کر لیا تھا کہ وہ اڑنہیں پائے گا اور نیچے گر کر مرجائے گا ا سلیے اس کے ساتھ وہی ہوا۔ دونوں چڑیا نے جب نیچے جھانک کر دیکھا تو انہیں بہت دکھ ہوا۔ چھوٹے شیرو کی ماں تو رونے لگی تھی مگر دوسری چڑیا نے اسے دلاسا دیا اور وہ دونوں آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرگئیں۔ کیونکہ سانپ کسی بھی وقت انہیں اپنی غذا بنا سکتا تھا۔

    اس لیے کہتے ہیں کہ ہمیں سست روی سے کسی بھی کام کو نہیں کرنا چاہئے، کیا پتا ضرورت کے وقت ہم میں اس کام کو کرنے کی سکت نہ رہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے