برف کے ڈلے کی کہانی
ایک دن برف باری کے وقت میں کھڑکی کے پاس کھڑا ہوا باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ برف کے ڈلے ناچتے، لڑھکتے اور پھسلتے ہوئے آ رہے تھے اور ہر چیز پرجم جاتے تھے۔ درختوں پر، دیواروں پر، صندوق پر، لوٹے پر تمام چیزوں پر۔ ایک بڑا ڈلا کھڑی کی طرف آ رہا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ کھڑکی کی طرف نکالا اور ڈلے کو روک لیا، دلا نہایت آرام سے ہاتھ میں آ گیا تھا، کتنا سفید اور شفاف تھا، کتنا خوبصورت اور برابر کٹا ہوا تھا، میں نے آہستہ آہستہ سے اپنے آپ سے کہا: کاش برف کا ڈلا اس رام کہانی سناتا اور اپنی زبان سے سناتا۔
اس وقت برف کا ڈلا بولا اور کہنے لگا: اگر یہ جاننا چاہتے ہو کہ میری سرگزشت کیا ہے۔ سنیے میں آپ کو بتاتا ہوں : میں چندمہینے پہلے پانی کا ایک قطرہ تھا۔ میں خزر کے سمندر میں تھا۔ میں سمندر کے لکھوکھا لکھوک قطروں کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر آتا جاتا تھا اور اپنی زندگی گزارتا تھا۔ ایک دن گرمیوں میں سمندرکی سطح پر پھر رہا تھا، سخت گرمی چمک رہی تھی، میں گرم ہوکر پھر بھاپ بن گیا۔ ہزاروں لاکھوں دوسرے قطرے میرے ساتھ بھاپ بن گئے۔ ہم ہلکے ہوکر پروں والے بن گئے اور خودبخود اونچے اٹھتے جا رہے تھے۔ ہوا ہمارے پیچھے پڑ گئی تھی اور ہمیں چاروں طرف سے بھاپ کے پہاڑ آ رہے تھے اور ہم میں شامل ہو جاتے تھے کبھی ہم بھی جاتے تھے اور بڑے تودوں میں جاکرمل جاتے تھے اور اوپر جاتے تھے اور دب جاتے تھے اور پھر زیادہ بڑے ہو جاتے ،کبھی سورج کو چھپا لیتے، کبھی چاند کا چہرہ ڈھانپ لیتے اور کبھی تاروں کو ڈھک کررات اور اندھیری بنا دیتے تھے۔
جس طرح کہ بھاپ کے کچھ ذرے کہتے تھے، ہم بادل بن گئے تھے، ہوا ہمارے اندر گھس آتی اور ہمیں عجیب اور طرح طرح کی شکلوں میں ڈھال دیتی میں جو خود سمندر میں تھا، کبھی کبھار بادلوں کو اونٹ اور آدمی اور گدھے کی تصویر میں دیکھتا تھا۔
مجھے معلوم نہیں کہ کتنے مہینے ہم آسمان میں مارے مارے پھرتے رہے، موسم ٹھنڈ ا ہو گیا تھا ہم اس قدر اندر چلے گئے تھے کہ ہم اپنے ہاتھ پیر بھی نہیں پھیلا سکتے تھے ہم لوگ جھنڈ بناکر چلتے تھے میں نہیں جانتا تھا ہم کہاں جا رہے ہیں۔ میں اپنے آگے پیچھے بھی نہیں دیکھتا تھا، سورج کا کوئی پتہ نہ تھا گویا ہم لوگوں نے خود ہی سورج کا سامنا روک لیا تھا۔ ہم بہت پھیل گئے ہماری لمبائی اور چوڑائی کئی سو کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہم چاہتے تھے کہ بارش بن جائیں اور زمین پر لوٹ آئیں۔
زمین کے شوق میں میرا دل قابو میں نہیں تھا، اک زمانہ گزر گیا۔ ہم سب آدھے پانی اور آدھے بھاپ تھے۔ ہم بارش بنتے جا رہے تھے، اچانک موسم اتنا ٹھنڈا ہو گیا کہ میں کانپ گیا اور ساتھ ہی سب کانپ گئے۔ میں نے اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور ایک سے کہا، کیا ہوا؟ جواب دیا: اب زمین میں ہیں جہاں کہ ہم ہیں، جاڑا ہے۔البتہ ہو سکتا ہے کہ دوسری جگہوں پر موسم گرم ہو، یہ اچانک سردی ہمیں اب بارش نہیں ہونے دےگی۔ دیکھو! میں برف ہونا ہی چاہتاہوں تم خود بھی۔۔۔
اس کا دوست اپنی بات کو جاری نہ رکھ سکا۔ برف بن گیا اور زمین کی طرف چل پڑا۔ اس کے پیچھے، میں اور ہزاروں، لاکھوں دوسرے بھی ایک کے بعد دوسرے برف بنتے گئے اور ہم زمین پر برس گئے۔
جس وقت میں سمندر میں تھا، بہت بھاری تھا لیکن اب ہلکا ہو گیا تھا۔ گھاس کے تنکے کی طرح اڑ رہا تھا۔ میں ٹھنڈک کو بھی نہیں جانتا تھا۔ اب ٹھنڈ میرے بدن کا حصہ بن گئی تھی۔ ہم ناچ رہے تھے اور نیچے آرہے تھے۔
جس وقت میں زمین کے نزدیک ہوا، میں نے دیکھا کہ میں تبریز شہر کے پاس گرنے والا ہوں اور میں خزر کے سمندر سے کس قدر دور آ گیا ہوں!
اس سے اوپر میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا ایک کتے کو لنگی مارنے ہی والا ہے اور کتا پوں پوں چلا رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگرمیں اسی طرح سیدھا گروں گا تو ایسے بچے کے سر پر پڑوں گا۔ تو میں نے ہوا سے خواہش کی کہ مجھے بچالے اور کسی اور جگہ لے جائے۔ ہوا نے میری درخواست مان لی، مجھے اٹھاکر یہاں لے آئی۔ جب دیکھا کہ تم نے اپنا ہاتھ میرے نیچے کیا ہے تو تم مجھے اچھے لگے اور ۔۔۔
ٹھیک اسی جگہ برف کے ڈلے کی آواز کٹ گئی، میں نے نگاہ ڈالی، دیکھا کہ پانی ہو گیا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.