بھینس اور کمبل کا بٹوارہ
اس دن میرے چھوٹے لڑکے مشتاق نے ضد پکڑ لی۔ ابو کہانی سنائیے، ابو کہانی سنائیے۔ آ ج ہم لوگ آپ سے کہانی سنیں گے۔ میں نے کہا: بیٹے مجھے کہانی نہیں آتی۔ میں کیسے کہانی سناؤں۔ لیکن مشتاق اشفاق اور جنید کے ساتھ اور دوسرے بچوں نے بھی کہانی سنانے کی ضد پکڑ لی۔ آخر میں نے کہا: میں تو کہانی کہنا نہیں جانتا لیکن میرے ابو نے یعنی تمہارے دادا نے مجھے کچھ کہانیاں سنائی تھیں۔ آؤ میں ان کی ہی سنائی کہانیوں میں سے ایک کہانی سناتا ہوں۔ ان کی کہانیوں میں سے کچھ کہانیاں گونوجھا کی تھیں۔ گونوجھا بہت ہوشیار، حاضر جواب اور بذلہ سنج تھا۔ ظرافت اس کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی خوش رہتا تھا اور اپنی حرکتوں اور باتوں سے لوگوں کو بھی ہنساتا رہتا تھا۔ بیربل، ملا نصیر الدین وغیرہ کا نام تم لوگوں نے سنا ہوگا۔ گونوجھا بھی اسی طرح کا آدمی تھا۔ چونکہ وہ عقلمند تھا اس لیے گاؤں کے لوگ اپنی مشکلیں حل کرنے میں گونوجھا کی مدد لیتے۔ لیکن کبھی کبھی گونوجھا خود بھی مشکلوں میں پھنس جاتا اور بڑی عقلمندی سے اس سے نکل بھی جاتا تھا۔ جیسے ایک بار کا واقعہ ہے۔
گونوجھا دو بھائی تھے۔ ایک گونوجھا اور دوسرا بھونوجھا۔ ایک دن بھونوجھا نے ضد پکڑ لی کہ بھائی، اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتا۔ مجھے علاحدہ کردو۔ آج بٹوارہ ہو جانا چاہئے۔ گونوجھا کے بہت سمجھانے کے بعد بھی جب بھونوجھا نہیں مانا تو گونوجھا نے جو چیزیں دو دو تھیں بانٹ دیں، لیکن اصل مسئلہ وہاں پھنس گیا جہاں ایک ہی چیز تھی۔ جیسے بھینس ایک تھی اور کمبل ایک تھا۔ اب اصل کا بٹوارہ ہو تو کیسے ہو۔ بھونوجھا نے کہا میں گاؤں کے لوگوں کو جمع کروں گا۔ پنچایت بلاؤں گا اور پنچایت میں جو فیصلہ ہوگا وہ ہم دونوں بھائی مان لیں گے۔ گونوجھا نے کہا ٹھیک ہے۔ بھونوں جھا نے گاؤں کے کچھ لوگوں کو کہہ سن کر یا کچھ دے لے کر اپنی طرف ملا لیا اور فیصلہ اپنے حق میں کروانے کی پوری تدبیر کر لی۔
ایک دن گاؤں کے لوگ جمع ہوئے اور پنچایت شروع ہو گئی۔ بھونوجھا نے جن لوگوں کو اپنی حمایت میں بولنے کے لیے کہا تھا ان لوگوں نے فیصلہ سنایا۔
گونوجھا اور بھونوجھا تم دونوں کا معاملہ ایک بھینس اور ایک کمبل کا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایک ایک ہیں اور اس کے دعویدار تم دونوں ہو۔ مسئلہ بہت الجھا ہوا اور مشکل ہے۔ اگر بھینس کو بیچ سے کاٹ دیا جائے تو بھینس مر جائے گی نہ گونوجھا کے کام آئےگی اور نہ بھونوجھا کے۔ اسی طرح کمبل ایک ہے اور دعویدار دو۔ اگر کمبل کو بیچ سے کاٹ دیا جائے تو کمبل کا مطلب ہی فوت ہو جائےگا۔ نہ اسے گونوجھا اوڑھ سکیں گے اور نہ ہی بھونوجھا۔ اس لیے ہم پنچوں نے بہت سوچنے اور سمجھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ بھینس کا اگلا حصہ گونوجھا کو دیا جاتا ہے اور بھینس کا پچھلا حصہ بھونوجھا کو۔ اسی طرح کمبل دن میں گونوجھا کو دیا جاتا ہے اور رات میں بھونوجھا کو۔ کمبل دن میں گونوجھا رکھیں گے اور رات میں بھونوجھا۔ ہم پنچوں کا فیصلہ آخری ہے اور اسے دونوں بھائیوں کو ماننا پڑےگا۔
گونوجھا سمجھ گئے کہ یہ بھونوجھا کی چال ہے۔ بھونوجھا نے پنچوں کو کچھ لے دے کر اپنے حق میں فیصلہ کروا لیا ہے۔ خیر پنچوں کا فیصلہ تھا ماننا تو تھا ہی۔
اب چونکہ گونوجھا کے حصے میں بھینس کا اگلا حصہ تھا اور اگلے حصے میں بھینس کا منھ ہے اس لئے بھینس کو کھلانا پلانا اور نہلانا گونوجھا کو پڑتا تھا اور بھونوجھا کے حصے میں چونکہ بھینس کا پچھلا حصہ پڑتا تھا اور پچھلے حصے میں بھینس کا تھن ہوتا ہے۔ اس لیے بھونوجھا شام کو بالٹی لے کر بھینس کا دودھ نکال لاتا اور خوب دودھ دہی کھاتا تھا اور خوش ہوتا تھا۔ بھینس کے گوبر کو جلاون کے کام میں لاتا۔
ادھر گونوجھا بہت مایوس اور اداس رہتا تھا کہ بھینس کو میں کھلاتا پلاتا اور نہلاتا ہوں اور بھونوجھا بھینس کا سب دودھ نکال کر لے جاتا ہے اور مزے سے دودھ دہی کھاتا ہے۔ گوبر کو جلاون کے کام میں لاتا ہے۔ لیکن گونو جھا کر بھی کیا سکتا تھا۔ ہاتھ مل کر رہ جاتا۔
یہی حال کمبل کا تھا۔ گونوجھا دن بھر کمبل کو دھوپ میں سکھاتا تھا اور رات کو جب ٹھنڈ لگتی اور کمبل اوڑھنے کی ضرورت ہوتی تو بھونوجھا کمبل لے جاتا۔ کیونکہ فیصلہ یہی ہوا تھا کہ کمبل دن میں گونوجھا رکھےگا اور رات میں بھونوجھا۔
گونوجھا کو کمبل کا بھی کم ملال نہ تھا۔ وہ سوچتا کمبل کی دیکھ بھال میں کرتا ہوں، دن بھر دھوپ میں میں سکھاتا ہوں اور جب رات کو اوڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے تو بھونوجھا لے جاتا ہے۔
اسی گھٹن کڑھن اور کف افسوس ملنے میں گونوجھا کے دن رات گزر رہے تھے کہ اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ گونو جھا کی عقلمندی نے اپنا کمال دکھایا اور دوسرے روز گونو جھا نے بھینس کو روز کی طرح کھلایا پلایا، نہلایا اور دروازے پر لاکر باندھ دھیا۔ جب شام ہوئی اور بھونو جھا بالٹی لے کر بھینس کا دودھ نکال رہا تھا تو گونوجھا ایک ڈنڈا لے کر بھینس کے منہ پر مارنے لگا۔ بھینس نے دولتی چلائی۔ بالٹی کا دودھ گر گیا اور بھونوجھا کو بھی چوٹیں آئیں۔ بھونوجھا غصے میں لال پیلا ہو گیا۔ گونوجھا سے کہنے لگا، ’’تم نے یہ کیا کیا، بالٹی کا سارا دودھ گر گیا۔‘‘ گونوجھا بولا، دیکھو بھینس کا اگلا حصہ میرا ہے۔ میں اپنے اگلے حصے میں کچھ بھی کروں اس سے تم کو کیا مطلب۔ تم اپنے پچھلے حصے میں کچھ بھی کرو اس سے مجھے مطلب نہیں۔
اسی طرح کمبل کے بارے میں بھی گونوجھا کو ایک تدبیر سوجھی۔ گونوجھا نے دن بھر کمبل کی دیکھ بھال کی، اچھی طرح سے سکھایا۔ بونوجھا یہ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ رات میں کمبل تو میں ہی اوڑھوں گا۔ لیکن گونوجھا نے مغرب سے پہلے کمبل کو پانی میں اچھی طرح بھگو دیا اور تہہ لگا کر رکھ دیا۔ جب رات میں بھونوجھا کمبل لینے کے لیے آیا تو کمبل کو بھیگا ہوا دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا۔ غصے میں گونوجھا سے پوچھنے لگا، ’’تم نے تو شام میں کمل کو کیوں بھگو دیا۔ اب میں اسے کیسے اوڑھوں گا؟‘‘
گونوجھا نے کہا، ’’میں کیا کروں۔‘‘ یہ تمہارا مسئلہ ہے تم کیسے اوڑھوگے۔ کمبل کودن میں سکھاؤں یا بھگوؤں یہ میری مرضی۔ رات میں تم کچھ کرو یہ تمہاری مرضی۔ نہ تمارے کام میں میں دخل دوں گا اور نہ میرے کام میں تم دخل دو۔
اب بھونوجھا کی سمجھ میں بات آ گئی کہ گونوجھا سے عقل کے معاملے میں جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ پھر بھینس اور کمبل کا ٹھیک سے بٹوارہ ہوا۔ بھینس کا دودھ ایک دن گونوجھا لینے لگا اور ایک دن بھونوجھا۔ اسی طرح کمبل ایک رات گونوجھا اوڑھتا اور ایک رات بھونوجھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.