Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھینس کی واپسی

محمد مجیب احمد

بھینس کی واپسی

محمد مجیب احمد

MORE BYمحمد مجیب احمد

    اُس کسان کی بھینس دن بھر میدان میں چرنے کے بعد شام کو اپنے مقام پر لوٹنے کے بجائے راستہ بھٹک کر کہیں چلی گئی تھی۔ اور وہ واپسی کے لیے اِدھر اُدھر پھرتی ہوئی نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ساری رات بھی بھینس کو اپنے ٹھکانہ پر نہ لوٹنے کی وجہ سے کسان بہت پریشان ہو گیا۔ اس کو بھینس کے اس طرح اچانک لا پتہ ہو جانے پر شبہ ہوا کہ وہ کہیں کھوئی نہیں بلکہ کسی نے اس کو چُرا لیا ہو۔ صبح ہوتے ہی کسان نے قریبی مواضعات میں بھینس کی تلاش شروع کر دی۔ اس نے کئی دنوں تک اپنی کارروائی جاری رکھی لیکن اسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اس کا گاؤں جو ’جوکُل‘ کہلاتا ہے وہ دوریاستوں کی سرحد پر واقع تھا۔ اس کا خیال تھا کہ سارقوں نے بھینس کو یہیں کہیں چھپا رکھا ہوگا۔ چنانچہ اس نے وہاں کے بازاروں میں بھی اپنی بھینس کو کافی ڈھونڈا۔ مگر وہ بازیاب نہ ہوسکی۔

    آخر کار ایک روز کسان کی محنت رنگ لائی اس نے کسی طرح ایک پڑوسی ریاست کے موضع میں اپنی بھینس کو ایک درخت سے باندھے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد کسان نے اپنے گاؤں لوٹ کر مقامی بڑے لوگوں کے ساتھ وہاں پہنچ کر اپنی بھینس کو واپس گاؤں لے آیا۔ بھینس کو گاؤں لاتے ہی ’گیانیشور‘ نامی ایک آدمی نے وہاں کے قریبی تھانہ پہنچ کر تھانیدار سے شکایت کی۔

    ’’تھانیدار صاحب! کسان نے جو بھینس اپنے گاؤں لے گیا ہے وہ اس کی زرخرید ہے۔ میں نے اس بھینس کو ’ہفتہ بازار‘ میں پچاس ہزار روپے کے بدلے خریدا تھا اور یہی بھینس کئی دنوں سے اس کی زیر پرورش رہی ہے۔ اگر کسان کو اپنی بھینس واپس لینی ہو تو اسے قیمت خریداری ادا کرے“۔

    ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ بھینس میری ہے۔ جو کئی روز سے گم ہوگئی تھی۔ اس کے گواہ گاؤں والے ہیں۔ کسان نے اپنا مدعا بیان کیا۔

    بھینس کی ملکیت کے لیے کسان اور گیانیشور کی دعویداری کا معاملہ ابھی زیردوران ہی تھا کہ ایک شخص پانڈو نے بھی تھانہ میں اپنی شکایت درج کروائی۔

    تھانیدار جی! دراصل یہ بھینس میری ہے۔ اس کو میں نے ایک موٹی رقم کے عوض بہت پہلے خریدا تھا۔ جو کچھ دنوں بعد میرے مکان سے راتوں رات غائب ہو گئی تھی۔ میں نے یہ سوچ کر اب تک شکایت نہیں کی تھی کہ وہ کبھی تو اپنے مکان واپس آجائے گی۔

    یوں ایک بھینس کے تین دعویدار آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے تھے۔ تھانیدار سخت الجھن میں پڑ گیا تھا کہ کس طرح اس مسئلہ کو سلجھائیں۔ کسی ایک دعویٰ دار کے پاس بھی بھینس کی خریداری کے کاغذات نہیں تھے۔ لیکن سب ہی اس پر اپنی ملکیت کا حق جتا رہے تھے ۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے تھانہ دار نے بھینس کی فوری ضبطی کا حکم دیا۔ پھر اسے ایک ترکیب سوجھی اس نے تینوں دعویداروں سے کہا کہ وہ تین روز بعد یہاں آئیں تاکہ بھینس کو اپنے حقیقی مالک کی شناخت کا موقع مل سکے۔

    تیسرے دن جب تینوں دعویدار بھینس کو حاصل کرنے کے لیے تھانہ پہنچے تو تھانہ دار نے بھینس کو ان کے سامنے تھانہ سے باہر نکال دیا۔

    بھینس جس کی بھی ہوگی وہ یقینی طور پر اس کے پاس چلی جائے گی۔ اس نے کہا۔ تھانے سے باہر کر دیئے جانے کے فوری بعد ضبط شدہ بھینس کسان کے گھر کی جانب چل پڑی۔ اس کے سفر کو حیرت کے ساتھ گیانیشور اور پانڈو ہی نہیں بلکہ گاؤں کے تمام عوام حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ اس طریقہ سے گمشدہ بھینس اپنے حقیقی دعویدار اور مالک کے پاس پہنچ گئی تھی۔ تھانیدار نے اس مشاہدہ کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہ بھینس واقعی کسان کی ہی ہے۔ کیوںکہ اس کو آزاد کرتے ہی اس نے اپنے حقیقی مالک کے گھر کا رخ کیا اور وہاں پہنچ گئی تھی:

    ’دیہی علاقوں میں مویشیوں کی چوری ایک عام بات ہے۔ ان مقامات پر ایک بھینس ہزاروں روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ میں اس تنازعہ کی یکسوئی کے لیے عہد ماضی کے ایک سبق آموز قصہ سے متاثر ہو کر یہ طریقۂ کار استعمال کیا تھا۔ اس بھینس کے بھی تین اشخاص دعوی دار تھے۔ تھانیدار نے اس معمہ کو حل کرنے کے بعد اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا۔

    دونوں ہی جھوٹے دعویداروں کو تھانیدار کی سخت سرزنش کے بعد سبکی اٹھاتے ہوئے بڑی خاموشی سے ناکامی اور مایوسی کے ساتھ اپنی راہ لینی پڑی تھی۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے