Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھولے_ناتھ

ڈی کے کنول

بھولے_ناتھ

ڈی کے کنول

MORE BYڈی کے کنول

    برسوں پہلے کی بات ہے بچو۔ بھولے ناتھ نام کا ایک آدمی تھا جو ہریانہ کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ بھولے ناتھ اپنے نام ہی کی طرح بہت ہی بھولا، بہت ہی سیدھا سادھا آدمی تھا۔ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا تھا اور شہر جاکر ان کو بیچتاتا تھا۔ یہی اس کی آمدنی کا ذریعہ تھا۔

    ایک دن کیا ہوا کہ بھولے ناتھ ایک پیڑ کی ٹہنی پر بیٹھا اسے ہی اپنی کلہاڑی سے کاٹ رہا تھا کہ ادھر سے ایک برہمن گذرا۔ اس کی نظر جب بھولے ناتھ پر پڑتی تو وہ چلایا۔

    ’’یہ کیا کر رہے ہو بیوقوف۔ اسی ٹہنی کو کاٹ رہے ہو جس پر خود بیٹھے ہو۔‘‘

    اگلے لمحے ٹہنی ٹوٹ گئی اور بھولے ناتھ نیچے گر گیا۔ شکر ہے کہ زیادہ اونچائی سے نہیں گرا نہیں تو ہڈی پسلی برابر ہو جاتی۔ بھولے ناتھ آہستہ آہستہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور برہمن کے پاؤں پر گر کر بولا۔

    ’’آپ دھنیہ ہیں مہاراج۔ آپ تو سب کچھ جانتے ہیں۔ آپ نے جہاں اتنا بتا دیا وہاں یہ بھی بتا دیجئے کہ میں کب مروں گا۔؟‘‘

    برہمن ہنس کر بولا۔

    ’’ارے پاگل میں کوئی جیوتشی نہیں۔ میں کیسے بتا سکتا ہوں کہ تم کب مروگے۔‘‘!

    بھولے ناتھ کہاں ماننے والا تھا۔ وہ بھی سر ہو گیا۔ برہمن کے پاؤں پکڑ کر بڑی عاجزی سے بولا۔

    ’’مہاراج بتائیے نا۔‘‘

    برہمن نے اسے ڈانتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے بھائی کیسے آدمی ہو تم۔ میں کیسے بتا سکتا ہوں کہ تم کب مروگے۔‘‘

    بھولے ناتھ بھی ڈھٹائی سے بولا۔

    ’’جب تک آپ مجھے نہیں بتائیں گے کہ میں کب مروں گا تب تک میں آپ کو جانے نہیں دوں گا۔‘‘

    برہمن پریشان ہو اٹھا۔ آخر اس آدمی سے پیچھا چھوٹے تو کیسے! اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے جیب سے ایک کالا دھاگا نکالا اور یہ دھاگا بھولے ناتھ کی طرف بڑھا کر بولا۔

    ’’یہ دھاگا گلے میں ڈال لو جس دن یہ دھاگا ٹوٹ جائےگا اسی دن تم مر جاؤگے۔‘‘

    بھولے ناتھ بہت خوش ہوا۔ اس نے چپ پٹ دھاگا گلے میں ڈالا اور برہمن سے آشیرواد لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔ برہمن نے اطلمینان کا سانس لیا کہ اس بلا سے پیچھا چھوٹا۔

    بھولے ناتھ کالے دھاگے کو جان کی طرح عزیز رکھتا تھا۔ اس کی بیوی، اس کی بیوقوفی پر اندر ہی اندر کھولتی رہتی تھی۔ مگر ظاہر ہونے نہیں دیتی تھی۔ ایک رات اس نے چپکے سے بھولے ناتھ کے گلے میں پڑا دھاگا توڑ دیا۔

    صبح جب بھولے ناتھ نیند سے جاگا تو یہ دیکھ کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔

    جب دن بھی چڑھ گیا اور بھولے ناتھ بستر سے ہیں اٹھا تو اس کی بیوی کو بے حد غصہ آ گیا۔ وہ ٹھنڈے پانی کی بالٹی لے کر دوڑی اور پوری بالٹی بھولے ناتھ پر انڈیلی۔ بھولے ناتھ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کی بیوی گھبرائی۔ منہ کے پاس ہاتھ لے گئی۔ دیکھا سانس چل رہی ہے تو جان میں جان آ گئی۔ غصے سے اسے ہلا جلا کر پوچھا۔

    ’’یہ کیا تماشہ ہے۔ آخر تم اٹھتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’مردے بھی کبھی اٹھتے ہیں جی۔ میں تو مردہ ہوں۔ جلدی سے پڑوسیوں کو خبر کر دو اور میری ارتھی سجا کر مجھے شمشان گھاٹ کی طرف بھجوا دو۔‘‘

    ’’مگر تم تو ابھی زندہ ہو۔! بیوی نے کہا۔‘‘

    ’’نہیں میں زندہ نہیں ہوں۔ میں تو اسی وقت مر گیا جب یہ سیاہ دھاگا ٹوٹ گیا۔ جلدی سے پڑوسیوں کو بلاکر لے آؤ۔‘‘

    جب بیوی نے دیکھا کہ یہ ماننے والا نہیں ہے لاکھ سمجھانے پر بھی تو اس نے چار کہاروں کو جمع کر دیا اور بھولے ناتھ کو ارتھی پر سوار کراکر شمشان کی طرف بھیج دیا۔ چاروں کہار اس گاؤں کے راستوں سے واقف نہیں تھے۔ ایک جگہ چوراہا آتا تھا۔ ان چار راستوں میں سے کون سا راستہ شمشان کی طرف جاتا تھا۔ یہ انہیں معلوم نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھ ہی رہے تھے کہ بھولے ناتھ اوپر سے بول پڑا۔

    ’’یہ بیچ والا راستہ شمشان کی طرف جاتا ہے۔‘‘

    چاروں کہاروں نے جب دیکھا کہ یہ آواز اوپر سے آ گئی تو وہ سمجھے کہ مردہ بھوت بن گیا۔ انہیوں نے خوفزدہ ہوکر ارتھی وہیں چھوڑ دی اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔

    اب بھولے ناتھ کرے تو کیا کرے۔ کون اسے شمشان گھاٹ پہنچائے یہی سوچ کر وہ واپس گھر لوٹ گیا۔ اس کی بیوی نے جب اسے دیکھا تو وہ کھکھلاکر ہنس پڑی۔ بھولے ناتھ غصے سے بولا۔

    ’’اس وقت میری جان پر بنی ہے اور تم کھی کھی کر رہی ہو۔‘‘

    بیوی نے اسے بہت پیار سے سمجھایا کہ جو مر جاتے ہیں وہ پھر چلتے پھرتے نظر نہیں آتے۔ وہ تو بےسدھ اور بےجان پڑے رہتے ہیں۔ پھر چاہے کوئی انہیں چیرے، پھاڑے کاٹے انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا، کہتے کہتے اس نے بھولے ناتھ کی بیٹھ میں سوئی چبھو دی بھولے ناتھ چیخ پڑا۔ بیوی بولی۔

    ’’اب یقین آیا نا کہ تم ابھی زندہ ہو۔ مر گئے ہوتے تو پھر اس طرح چیخ نہ پڑتے۔‘‘

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے