میرے ابا جو ایک پولیس افسر تھے ان کا تبادلہ ریاست بھوپال کے چھوٹے سے قصبے سے شہر بھوپال کے ایک بڑے تھانے میں ہو گیا۔
نئے گھر میں ہمارا سامان اتارا جا رہا تھا۔ پھوپھی اماں اور دادی اماں ایک ایک کمرے میں آیۃالکرسی پڑھ کر دم کر رہی تھیں۔ میں نے شمیمہ باجی کا ہاتھ پکڑا اور کھینچتے ہوئے کہا۔ باجی! چلو ذرا آس پاس کی چیزوں کو اسی وقت دیکھ ڈالیں۔ پھر خدا جانے پھوپھی اماں اور دادی اماں گھر سے نکلیں دیں یا نہیں۔
شمیمہ باجی نے اپنا برقع سنبھالا۔ انہوں نے دس گیارہ سال کی عمر میں ابھی کچھ دن پہلے ہی برقع اوڑھنا شروع کیا تھا اور انہیں ابھی اس کی عادت بھی کچھ یوں ہی سی تھی۔ جب وہ برقع اوڑھ کر چلتیں تو بار بار اس سے الجھ جاتیں اور گرتے گرتے بچتیں۔ انہیں برقع میں دیکھ کر کبھی ’’بڑی بی‘‘ کبھی حجن بوا کہہ کر میں ان کا مذاق اڑاتی۔ وہ کھسیانی ہو کر دادی اماں سے شکایت کرتیں۔ دادی اماں لڑکھڑاتی، ڈگمگاتی مجھے مارنے کھڑی ہوتیں تو میں بھاگ کھڑی ہوتی۔ شمیمہ باجی یوں بھی سیدھی اور گھر والوں کی نظر میں نیک اور ’’شریف‘‘ بچی تھیں اور میں ’’شریر‘‘ آفت کی پرکالہ، جس سے نچلا بیٹھا بھی نہیں جاتا، گھر میں شمیمہ باجی اور میں ہی دو لڑکیاں تھیں۔ میں ہر شیطانی یا ہر حرکت میں انہیں اپنے ساتھ کھینچنا چاہتی تھی مگر وہ تھیں ہی کچھ ڈرپوک سی۔
میں نے شمیمہ باجی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنا شروع کیا اور باغ میں ایک ایک جھاڑی اور ایک ایک پیڑ کا معائنہ شروع کر دیا۔ اسے اس وقت تو باغ نہیں کہا جا سکتا تھا کیوں کہ بہت دن سے نہ اس میں پانی دیا گیا تھا۔ اس کی دیکھ بھال ہوئی تھی۔ اونچی اونچی جھاڑیاں اور اونچے گھنے پیڑ پودے گھر کو ڈھکے ہوئے تھے۔
باجی! میں نے دو چار پیڑوں کو دیکھ کر کہا ’’بڑا مزہ آئےگا اس گھر میں‘‘ دیکھو یہاں کھٹے ککروندے، املی اور کمرخ کے کتنے پیڑ ہیں۔ باجی تمہیں بھی کھٹی املی اور کمرخ کا بہت شوق ہے نا؟
باجی نے منہ سے جواب تو کچھ نہیں دیا مگر ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ ان کے منہ میں پانی بھر آیا ہے۔
یہ گھر جس میں ہمارے خاندان کے لوگ اب رہ رہے تھے وہ ’’ہوا محل‘‘ کہلاتا تھا اور بہت پرانا مکان لگتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کبھی بڑی خوبصورت اور شاندار حویلی رہی ہو کسی نواب کی۔۔۔ خیر، جس حصہ میں میرا خاندان آکر ٹھرا تھا اس کے پیچھے کا حصہ بالکل کھنڈر تھا۔ اب اس حصہ میں ایک ٹوٹی پھوٹی دیواروں اور گری ہوئی چھتوں کے ملبے کا ڈھیر تھا۔ اس ٹوٹے پھوٹے کھنڈر کی ایک کوٹھری ہمارے گھر کے اندر کھلتی تھی جسے ہمیشہ بند رکھا جاتا تھا۔ اس بند کھڑکی کو دیکھ کر ہمیشہ جی چاہتا تھا کہ جاکر دیکھوں کہ ادھر کیا ہے۔ میری یہ خواہش دن بدن بڑھتی ہی گئی۔ ایک دن پھوپی اماں نے مجھے کھڑکی کی طرف جاتے دیکھ کر بڑا ڈراؤنا سا انداز بنا کر سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو نسیمہ، مجھے آس پاس رہنے والوں نے بتایا ہے کہ اس کھنڈر میں بھوتوں اور بدروحوں کا جماؤ ہے، خبردار ادھر نہ جانا‘‘۔
’’مگر پھوپی اماں بھوت پریت، چڑیل تو کچھ ہوتے نہیں‘‘۔ میں نے ان کی بات کاٹی۔
’’دیکھا میں نہ کہتی تھی!‘‘ دادی اماں نے ماتھے پر ہاتھ مارکر کہا۔ ’’اس لڑکی کا دماغ بالکل پھر گیا ہے۔ دیکھ لڑکی کان کھول کر سن لے! اگر تو نے اس کھنڈر کا رخ کیا تو کھنڈر کے بھوت تجھے زندہ نہ چھوڑیں گے!‘‘
دادی اماں اور پھوپی اماں دیر تک مجھے ڈراتی اور سمجھاتی رہیں مگر میں نے دل میں ٹھان لی کہ جب بھوت پریت اتنے قریب ہی رہ رہے ہوں تو اس سے اچھا موقع کیا ہوگا کہ انہیں دیکھنے کا۔ ادھر ہمیں ابا کے بتائے ہوئے اس نسخے پر بھی پورا یقین تھا کہ اندھیرے میں یا رات کو جب بھی کسی چیز سے ڈر لگے تو آیۃ الکرسی پڑھ لی جائے۔ ہمارے تائے ابا ہمیں بڑے پیار سے نماز، اس کا ترجمہ اور دینیات کی دوسری باتیں سمجھاتے تھے۔ انہوں نے آیۃ الکرسی یاد بھی کرادی تھی اور ہمارے دل سے اندھیرے، بھوتوں اور جنوں وغیرہ کا ڈر بھی نکال دیا تھا۔ پھر بھی بھوت ہوتا کیا ہے؟ یہ دیکھنے کا شوق مجھے مستقل اکساتا رہتا اور جب ابا اور تائے ابا دفتر چلے جاتے اور گرمیوں کی دوپہر میں ہماری اماں دادی اماں اور پھوپھی سب سو جاتے تو دبے پاؤں اٹھتی کھڑکی سے کود کر کھنڈر میں گھومتی اور وہ آوازیں سنتی جو کبھی بہت ڈراونی لگتیں اور تھوڑی دیر کے لیے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور سارے جسم میں چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہونے لگتیں۔ ایک زور سے ’’پھٹ پھٹ پھٹائک‘‘ چٹ چٹ چٹاخ۔ میں جب کوٹھری کے اندر جھانکتی تو مجھے کالی کالی سامنے والی دیوار پر انگارہ جیسے دو گول گول دیدے نظرے آتے! اور پھر جیسے ہی گھر کے کسی کمرے سے کسی کے کھانسنے یا کروٹ بدلنے کی آہٹ محسوس ہوتی میں غڑاپ سے کھڑکی سے کود کر اندر آ جاتی اور کھڑکی بند کر دیتی۔ مگر میں نے طے کر لیا کہ کسی نہ کسی دن ان دیدوں والے بھوت کو ضرور دیکھوں گی۔
’’جب میری ڈرپوک باجی نے میرے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا تو ایک دن میں نے اکیلے ہی دوپہر میں سناٹا ہوتے کھڑکی کھول کر کھنڈر میں قدم رکھا اور سیدھا کوٹھری کا رخ کیا۔ آیۃ الکرسی پڑھتی ادھر ادھر دیکھتی آخر میں کوٹھری کے اندر داخل ہو گئی۔ کوٹھری کے فرش پر بکھرے سوکھے پتے میرے پیروں کے نیچے چرمرائے اور سلیپروں کے نیچے دب کر کوڑا کرکٹ، چٹر پٹر کی سی آوازیں پیدا کرنے لگا۔ ادھر چھت پر سے ایک غول جنگلی فاختاؤں اور کبوتروں کا زور سے پھٹپھٹاتا ہوا اڑا اور عجیب ڈراؤنی آوازوں میں شور مچانے لگا۔ فوراً ہی کچھ چمگاڈریں بھی ادھر ادھر اڑ کر دیواروں پر ٹکریں مارنے لگیں اور ان سب ملی جلی آوازوں کی گونج سے ایک عجب بھیانک سا شور پیدا ہونے لگا۔ میرے جسم میں ایک ہلکی سی سنسناہٹ تو ضرور محسوس ہوئی مگر آج میں بھی دل میں فیصلہ کر کے آئی تھی۔ میں بھی نظریں جمائے دیکھتی اور سنتی رہی۔ میں نے دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے۔۔۔ان چمگاڈروں اور جنگلی پرندوں کو دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا۔۔۔ اچھا تو یہ ہیں بھوت پریت صاحبان‘‘۔
مگر وہ انگارہ جیسے گول گول دیدے کس کے ہیں؟جنہں میں اب بھی ٹوٹی پھوٹی سامنے والی دیوار پر دیکھ رہی تھی۔ کافی غور کرنے پر مجھے چھت سے کچھ نیچے دو گول سوراخ نظر آئے۔ جنہیں پرانے گھروں میں روشن دانوں کے طور پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ انہیں سوراخوں سے دوپہر کی تیز دھوپ کی دوشعاعیں دیوار پر چمک دار ٹکیاں سی بنا رہی تھی میں یہ راز جان کر اس بات پر بہت خوش تھی کہ میں نے اکیلے ہی بھوت کی آنکھیں پہچان لیں ہیں۔
اور شام جو جب تائے ابا دفتر سے آئے تو ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے میں نے پورے جوش میں اپنا آج کا کارنامہ سنایا۔
تائے ابا۔۔۔ آخر آج میں نے بھوت پریت دیکھ ہی لیے۔
’’کیسے بھوت پریت؟‘‘ تائے ابا نے حیرت سے پوچھا۔
ارے وہی جن سے دادی اماں اور پھوپھی اماں ہمیں ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’وہ جو کھنڈر میں رہتے ہیں۔ تائے ابا۔ وہاں تو صرف جنگلی پرندے اور چمگاڈریں رہتی ہیں۔ میری آہٹ پاتے ہی خود مجھ سے ڈرگئے اور لگے شور مچانے اور ادھر ادھر بھاگنے۔ ہاں ان کی آوازیں کوٹھری میں ضرور ایسے گونجتی ہیں جن سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘
تائے ابا مسکرائے۔ ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ میری ہمت اور میرے نڈر ہونے پر بہت خوش تھے۔ مگر انہوں نے کچھ رک کر کہا۔ ’’مگر تم دادی اماں اور پھوپھی کا کہنا نہیں مانتیں۔ یہ بری بات ہے۔ اگر وہاں بھوت نہیں ہیں تو سانپ بچھو اور کیڑے مکوڑے تو ہوسکتے ہیں اور کوئی چھت یا دیوار بھی تو گر سکتی ہے تمہارے اوپر‘‘۔
پھر بھی آج میں اپنی کامیابی پر بہت خوش تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.