Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بلی کے گلے میں گھنٹی

وقار محسن

بلی کے گلے میں گھنٹی

وقار محسن

MORE BYوقار محسن

    آخر جوجو نے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا بیڑا اٹھایا۔

    برکت فلور مل چوہوں کی ایک قدیم اور وسیع ریاست تھی۔ گندم کی بوریوں کے ساتھ سوکھی روٹیوں کی بوریاں بھی موجود ہوتی تھیں تاکہ دونوں کو ملا کر آٹا تیار کیا جا سکے اور یوں حاجی برکت علی کی آمدنی اور لوگوں کے پیٹ کے امراض می اضافہ ہوتا رہے۔ جب گندم اور سوکھی روٹیوں کی نئی کھیپ آتی تو چوہوں کی عید ہوجاتی۔ جب سیر ہو کر کھانے کے بعد ان کے پیٹ لٹک جاتے تو وہ نئے نئے خواب دیکھنے لگتےاور اس قسم کی تقریریں ہوتی۔

    ایک بزرگ چوہا اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے بولے۔

    ’’میرے عزیز ہم وطنوں! آخر ہم کب تک چوہے دانوں اور بلی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ آخر کب وہ انقلاب آئے گا جب ہر گودام، ہر باورچی خانہ اور ہر پرچون کی دوکان پر ہماری حکومت ہوگی؟‘‘

    اگلا نوجوان چوہا دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہوکر پہلوانوں کی طرح ران پر ہاتھ مارتے ہوئے۔

    ’’اس بار نامراد بلی مجھے نظر آ جائے پھر دیکھنا اس کا کیا حشر کرتا ہوں۔ ظلم سہنا بھی ظالم کی حمایت ہے۔‘‘

    اگلا ضعیف چوہا کھانستے ہوئے۔ ’’ہم صدیوں سے بلی کے مظالم سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں اگر ہم بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں گے۔‘‘

    بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی تدبیر واقعی چوہوں کی قوم میں ایک عرصہ سے گردش کر رہی تھی۔ اس سلسلہ میں کچھ سنجیدہ اور انقلابی اقدامات بھی ہوئے لیکن کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ ایک بار چند نوجوان وہ گھنٹہ گھسیٹ لائے جو اسکول میں لکڑی کے ہتھوڑے سے بجایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھاری تھالی نما گھنٹہ سپاہیوں سے سنبھل نہ سکا اور دو تین اسی کے نیچے دن کر رحلت فرما گئے۔ دوسری بار کچھ کم فہم نوجوان کسی بیل کی گھنٹی گھسیٹ لائے۔ اس کے گھسیٹنے میں ایسا شور مچا کہ سوئی ہوئی بلیاں جاگ گئیں اور یوں تمام انقلابی بلیوں کے ہتھے چڑھ گئے۔

    جوجو ایک نہایت چالاک شریر اور نڈر چوہا تھا۔ والدین کے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ چوہے دان میں لگا مکھن پنیر یا ڈبل روٹی کا ٹکڑا صاف نکال لاتا اور چوہے دان کا مونہہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ جاتا۔ جوجو بھی اپنے بزرگوں کے دعوے اور احمقانہ تقریریں سنتا رہتا۔ آخر اس نے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس نے اپنے تینوں دوستوں چوں چوں، گو گو اور چمکو کو اپنی اسکیم تفصیل سے سمجھائی اور تنبیہہ کر دی کہ اس اسکیم کی اطلاع کسی بزرگ کو نہ دی جائے۔

    چمکو کا گھر بوتل گلی کی مشہور دوکان مکہ عطر ہاؤس میں تھا۔ چاروں دوست وہاں سے ایک خوبصورت سنہری عطر کی خالی شیشی لے کر آئے اور اسے صاف کر کے ایک مخمل کی ڈبیا میں رکھ دیا۔ اگلے دن چاروں دوست وہ شیشی لے کر پھول باغ پہنچے۔ ایک کیاری میں چمبیلی کے پھول آنکھیں موندے سو رہے تھے۔ جوجو نے ان کی نازک گردن ہلا کر کہا۔

    ’’چمبیلی بہن! معاف کرنا ہم آپ کی نیند میں مخل ہوئے۔ آپ کی بہت مہربانی ہو اگر آپ اپنی خوشبو کے چند قطرے عنایت کردیں۔‘‘ چمبیلی نے مسکراتے ہوئے چند قطرے شیشی میں ٹپکا دیئے۔

    اس کے بعد چاروں دوست گلاب کے پاس گئے جو کھکھلاکر بلبل سے باتیں کر رہا تھا۔ چوں چوں نے گلاب کو سلام کر کے کہا۔

    ’’پھولوں کے راجہ اگر آپ ہمیں اپنی خوشبو کے چند قطرے دے دیں تو آپ کا بہت احسان ہوگا۔‘‘

    ’’ارے ہمارا تو کام ہی خوشبو بانٹنا ہے۔ بھرلو شیشی۔‘‘ گلاب نے ہنس کر کہا۔

    یوں چاروں دوست بیلا، چمپا، رات کی رانی، دن کا راجہ کے پاس بھی گئے اور ان کی خوشبوؤں کے قطرے بھی حاصل کر لئے اور سنہری شیشی پتوں میں چھپا دی۔

    بلیوں نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے تھے اور برکت فلورمل پر مانو چمپا کی حکومت تھی۔ جوجو کو علم تھا کہ 22 جنوری کو بی چمپا کی سالگرہ ہے اور اس دن فلورمل کی چھت پر علاقہ کی بلیاں جمع ہوکر جشن منائیں گی اور یوں اس دن چاروں دوست اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر ایک چوہے گاڑی پر وہ خوشبوؤں سے بھری شیشی لاد کر اس وقت چھت پر پہنچے جب بلیوں کا جشن عروج پر تھا۔ فرش پر ایک سفید دسترخوان پر گوشت کی بوٹیوں، نرم نرم ہڈیوں اور مچھلیوں کا ڈھیر تھا۔ مٹی کے کونڈوں میں دودھ بھرا ہوا تھا۔ چاروں دوست ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ گئے۔

    کچھ دیر بعد جب بی چمپا کی نظر ان چاروں پر پڑی تو اس کی دم اور کمر کے بال کھڑے ہو گئے اور اس نے چیخ کر کہا۔’’تم! تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہماری محفل میں آنے کی‘‘

    ایک اور مہمان بلی ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔’’چلو اچھا ہوا۔ اب کھانے کے مینو میں ان چاروں کا بھی اضافہ ہو جائےگا۔‘‘

    جوجو نے ادب سے سرجھکا کر کہا۔

    ’’چمپا بہن ہماری نیت صاف ہے۔ ہم لوگ آپ کی سالگرہ پر ایسا نایاب تحفہ لے کر آئے ہیں کہ آپ کا دل باغ باغ ہو جائےگا۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے جب جوجو نے خوشبو کی شیشی کا ڈھکنا کھولا تو مست کر دینے والی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی۔ مانو چمپا نے حیرت سے سنہری شیشی کی طرف دیکھا اور پھر چند قطرے اپنے ریشمی بالوں پر لگا لئے جس سے اس کے پورے جسم سے خوشبوؤں کی لپٹیں اٹھنے لگیں۔ چمپا نے خوش ہوکر کہا۔ ’’واقعی تم لوگوں کا تحفہ لاجواب ہے۔ اس لئے ہم اس خوشی میں آج تم لوگوں کو نوش فرمانے کا ارادہ ترک کرتے ہیں۔‘‘

    اس کے بعد جب بھی بی چمپا خوشبو لگا کر نکلتیں تو چاروں طرف مہک پھیل جاتی اور تمام چوہے محفوظ مقامات پر پہنچ جاتے اور یوں جوجو کی عقلمندی سے آخرکار چوہے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے بجائے انہیں خوشبو میں معطر کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ان کی صدیوں پرانا بلی سے ہوشیار رہنےکا خواب پورا ہو گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے