بلیک بورڈ کی کہانی
اسکاٹ لینڈ میں ایک استاد تھے۔ ان کا نام جیمس ولین (James Vilen) تھا۔ وہ جغرافیہ پڑھاتے تھے۔ انہیں جغرافیہ پڑھانے یعنی بچوں کو سمجھانے میں اکثر مشکل پیش آتی۔ بچے اس موضوع میں دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ وہ کسی ایسے ذریعہ کی تلاش میں تھے جس سے پہاڑ، ندیاں، وادیاں، میدان کے بارے میں آسانی سے سمجھا سکیں اور بچے آسانی اور دلچسپی سے سمجھ سکیں۔
1814 کی بات ہے وہ اپنے مکان کے باغیچے میں بیٹھے تھے۔ برسات کا موسم تھا۔ آسمان پر بادل سورج کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ وہ غور سے اس کھیل کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ سورج کے چمکنے کے ساتھ بادل آسمان پر مختلف اشکال اختیار کر لیتے۔ سورج کبھی بادلوں کا ڈھانک لیتا تو کبھی بادل سورج کو۔ ان کا دماغ تیزی سے کام کرنے لگا۔ انہوں نے طے کر لیا کہ وہ بھی بڑے تختہ پر پہاڑ، ندیاں، بنا کر بچوں کو مضمون سمجھائیں گے۔
جیمس نے آم کے درختوں کے تنوں پر لکھے ہوئے نام دیکھے تھے ان کے خیال کو اور تقویت ملی۔ انہوں نے آم کی لکڑی کے چھوٹے تختے جوڑ کر ایک بڑا تختہ بنایا اور کالا پینٹ کر لیا۔
جیمس نے کلاس میں تختہ کھڑا کر کے اس پر پہاڑ اور ندیاں بنا کر بچوں کو پڑھایا تو بچوں کو تو بہت لطف آیا مگر دوسرے اساتذہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ آہستہ آہستہ دوسرے اساتذہ کو بورڈ کی اہمیت اور افادیت کو قبول کرنا پڑا۔ بورڈ کو بلیک بورڈ نام دے کر اسکولی تعلیم کا اہم حصہ بنا لیا گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.