بولتا درخت
ٹن۔ٹن۔ٹن۔ٹن۔۔۔ ٹن ٹن
اسکول میں چھٹی کا گھنٹہ بجا۔ استادوں نے اپنی اپنی جماعت کے بچوں کو قطار میں کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ بچوں نے گھنٹہ کی آواز کے ساتھ ساتھ استادوں کے حکم کو انتہائی خوشی سے سنا اور جھٹ پٹ منے منے ہاتھوں اپنے اپنے بستے گلے میں لٹکاکر لائنوں میں جالگے۔ قومی ترانہ گایا گیا اور بچے پرنسپل کو خدا حافظ کہہ کر قطار در قطار اسکول سے باہر نکلنے لگے۔
پھاٹک سے باہر کچھ ٹھیلے والے کھڑے ’’آلو چھولے کی چاٹ۔دیہی بڑے۔ مونگ پھلی۔ امرود کے کچالو۔ فالسے‘‘ کی آوازیں لگارہے ہیں۔ بچے ان کے ٹھیلوں پر ٹوٹ پڑے۔ ننھا بختیار بھی ایک ہاتھ سے اپنا بستہ، دوسرے سے نیکر سنبھالے ایک ٹھیلے کے پاس رک گیا۔ جیب سے اکنی نکالی اور ٹھیلے والے سے انگلی کے اشارے سے کہا ’’ایک آنہ کے فالسے دے دو۔‘‘
فالسے والے نے جولہک لہک کر آواز لگانے میں مگن تھا بختیار کے ہاتھ سے اکنی لے اپنی گلک میں ڈالی اور گاتے ہی گاتے ایک پڑیامیں فالسے ڈالے۔ ان پرن مک چھڑکا۔ دو چار دفعہ پڑیا کو اچھالا اور بختیار کو ’’لومنے‘‘ کہہ کر پکڑا دی اور پھر گانے میں مصروف ہو گیا۔ وہ گا رہا تھا:۔
’’آؤ بچو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔‘‘
‘‘آؤ بچو! کھاؤ میرے کالے کالے۔۔۔‘‘
بختیار کو اس کی امی اسکول کے لئے ایک آنہ روز دیتی تھیں کہ اس کا دل چاہے توکوئی صاف ستھری چیز گھر پر لاکر کھا لے ورنہ پیسے جمع کرکے اپنے لئے کوئی اچھی سی کہانیوں کی کتاب خرید لے۔ ننھا بختیار اسی اکنی کے فالسے کی پڑیا مٹھی میں دبا گھر کی طرف چل دیا۔ گھر جاکر کتابوں کا بستہ مقررہ جگہ پر رکھا اور فالسوں کی پڑیاں ماں کو دی، اپنی یو نیفارم اور جوتے موزے اتارے، ہاتھ منہ دھوکر کھانا کھانے بیٹھا اور بڑے جوش سے ماں سے کہا ’’امی آپ نے فالسے کھائے؟ کتنی مزیدار ہیں نا؟ امی نے کہا ’’فالسے کھانے سے پہلے میں نے انہیں دھویا اور پھر سے نمک چھڑکا۔ بازار کے کھلے ہوئے فالسے تھے۔ نہ جانے صاف تھے یا نہیں۔ کھانا کھاکر میں بھی دو چار کھا لوں گی، باقی تم کھانا۔ فالسے بہت فائدہ مند ہوتے ہیں صحت کے لئے۔ مگر صفائی ضروری ہے۔ تمہار ا جی چاہے تو اپنے باغ کی کیاریوں میں اس کی گٹھلیاں بکھیر دینا۔ تمہارے گھر میں فالسے ہی فالسے ہو جائیں گے۔‘‘
بختیار کھانا ختم کرکے فالسے کھاتا جائے اور گٹھلیاں جمع کرتا جائے اور پھر اس نےوہ گٹھلیاں اپنی کیاری میں ڈال دیں۔
کچھ دنوں بعدایک ننھا ساپودا زمین سے نکلا۔ ننھا بختیار خوشی سے اچھل پڑا۔ دوڑ کر امی کو پکڑکر لایا۔ ’’امی، دیکھئے میرے فالسے کا پودا نکلا۔‘‘ اسے دھیان سے پانی دیا کرو۔ کبھی کبھی زمین کی گڑائی کرتے رہا کرو۔ میں کھاد اور میٹھی مٹی منگاکر ڈلواتی رہوں گی۔ بس پھرتمہار ا یہ ننھا پودا جلدی سے بڑا اور پھل داردرخت بن جائےگا۔‘‘
ننھا بختیار ہر روز اسکول سے آکر دوپہر کوآرام کرنے کے بعد اپنے دماغ میں اپنی ماں کے ساتھ کام کرتا اور فالسے کی پتیوں کو محبت سے چومتا اور اسے بڑا ہوتے دیکھ کر جی ہی جی میں خوش ہوتا۔
ایک روز بختیار نے اپنے فالسے کے درخت میں بہت سے پیلے پیلے نازک سے پھول لگے ہوئے دیکھے۔ اس نے ان پھولوں کا ذکر اپنے اسکول کے دوستوں سے کیا۔ دوستوں کا بھی دیکھنے کو جی چاہا۔ وہ بختیار کے ساتھ اس کے گھرآئے اورپھول دیکھ کرسب بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھائے کہ پھول توڑکر گھر لے جائیں اور خوش ہوں مگر جیسے ہی بچوں کے ہاتھ درخت کی طرف بڑھے ایک آواز آئی جیسے کوئی درد بھری آواز سے کہہ رہا ہو ’’ہائے ظالم، مارڈالا۔‘‘
بچوں نے ڈرکے مارے اپنے ہاتھ پیچھے کرلئے اور ادھرادھر دیکھنے لگے کہ شاید کوئی آدمی بول رہاہو۔مگر جب انہیں کوئی نظرنہ آیا تو دوبارہ پھول توڑنے کے لئے اپنے ہاتھ بڑھائے، مگر پھروہی آواز آئی۔ ’’ہائے ظالم، مار ڈالا‘‘ اب توسب بچے ’’بھوت بھوت‘‘ کہتے اپنے اپنے گھروں کوبھاگے۔ بچارا بختیار اپنے گھر کے اندر بھاگا اورجاکر اپنی امی کو سب حال بتا دیا۔
امی باہرآئیں کہ دیکھیں کون بھوت ہے جوبچوں کو ڈرا رہا ہے۔ امی نے درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہیں وہی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھ گئیں کہ درخت کو اپنے پھولوں کے توڑے جانے کا درد ہے۔ انہو ں نے بختیار ک وسمجھایا ’’بیٹایہ بھوت کی آواز نہیں ہے۔بلکہ درخت کہہ رہا ہے کہ میرے پھول نہ توڑو۔ ان کے توڑنے سے مجھے دکھ ہوگا، کیونکہ پھولوں سے فالسے بنیں گے اور اگر انہیں توڑ لوگے تو میں پھول دار کیسے بنوں گا۔‘‘
بختیار کو فالسے کے درخت سے بہت سے محبت تھی۔ فوراً ایک اچھے بچے کی طرح اپنی ماں کی بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور اس نے ان پھولوں کو ہاتھ نہ لگایا۔
تھوڑے دنوں بعداس درخت میں ہری ہری گٹھلیاں سی لگی ہوئی دیکھنے میں آئیں تو بختیار سمجھا کہ یہی فالسے ہیں۔ اس نے اسکول میں اپنے دوستوں سے بتایا کہ میرے درخت میں بہت سے فالسے آ رہے ہیں۔ اس کے دوستوں کو وہ پچھلا بھوت کا واقعہ کچھ یاد تو تھا مگر فالسے کھانے کے شوق میں اسکول سے واپسی پر وہ پھر بختیار کے ساتھ اس کے گھر پر آ ہی دھمکے۔ ہاتھ بڑھاکر فالسے توڑنا ہی چاہتے تھے کہ پھر وہی دردناک آواز سنائی دی ’’ہائے ظالم، مار ڈالا‘‘ اوہو! بچوں کو اب پوری طرح یقین ہو گیا کہ بختیار کے فالسے کا درخت بھوتوں کا اڈا ہے۔ بھاگے سب کے سب اور اپنے اپنے گھر جاکر ہی دم لیا۔ ننھا بختیار یہ تماشہ دیکھ کر باہر آیا ’’امی سچ کہہ رہا ہوں فالسے کے درخت کے اندر بھوت رہتا ہے۔ ابھی پھر اس میں سے آواز آئی تھی۔‘‘ امی اپنی ہنسی روکتی جائیں اور پتوں کو ہٹاکر دیکھنا چاہتی تھیں کہ کون بھوت ہے۔امی کا ہاتھ بڑھتے دیکھ کر درخت سمجھا وہ بھی اس کے فالسے توڑنے آ گئیں۔ پھر اس میں سے آواز آئی ’’ہائے ظالم، مار ڈالا۔‘‘
امی سمجھ گئیں اور کہنے لگیں ۔’’دیکھو، یہ بھوت کی آواز نہیں ہے۔ یہ درخت نہیں چاہتا کہ اس کاکچا پھل توڑا جائے۔ جب پک جائے تو کھانا۔ اس لئے یہ بچارہ اس طرح کہہ رہا ہے۔‘’ ننھا بختیار کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا، مگر چب ضرور ہو گیا۔
کوئی پندرہ دن کے بعد ایک صبح اسکول جانے سے پہلے بختیار نے دیکھا کہ اس کے فالسے کا درخت بڑا حسین نظر آ رہا ہے۔ ہری ہری پیتو ں کی آڑ سے ڈالیوں میں لگے ہوئے اودے اودے کالے کالے فالسے جھانک رہے تھے اور پھلوں سے لدی ہوئی ڈالیاں خوشی سے جھوم رہی تھیں۔ اس نے سوچا کہ بس اپنے دوستوں کو فالسے ضرور کھلاؤں گا اور خود بھی کھاؤں گا۔
اسکول سے واپسی پر وہ اپنے دوستوں کو ساتھ لایا۔ بچے کہنے لگے ’’بھئی تمہارا درخت تو بھوتوں کا اڈا ہے۔ ہاتھ نہیں لگانے دیتا۔ ہم کیسے فالسے کھائیں گے؟ ‘‘ یہ کہتے گئے اور ہاتھ بڑھاکے فالسے توڑنے لگے، مگراس بار درخت میں سے بڑی پیار بھری دھیمی دھیمی آواز آ رہی تھی ’’آؤ بچو! کھاؤ میرے کالے کالے، اودے اودے، میٹھے میٹھے فالسے۔ آؤ بچو۔۔۔‘‘ اور ڈالیاں تھیں کہ بچوں کے آگے محبت سے بڑھی آتی تھیں، جھکی جاتی تھیں۔
اس روز سب بچوں اور ننھے بختیار نے خوب مزے لے لے کر اپنے درخت سے فالسے توڑ توڑ کر کھائے اور تھوڑے تھوڑے فالسے جیبوں میں بھرکر اپنے اپنے گھر لے گئے۔ راستہ بھر ایک دوسرے سے کہتے تھے ’’بختیار کا درخت بولتا درخت ہے، مگر ہے بڑے کام کا، ہم بھی اس کے فالسے کے بیج اپنے گھر میں بوئیں گے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.