Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بوڑھی عورت اور اس کا سنہری چوزہ

صمد بہرنگی

بوڑھی عورت اور اس کا سنہری چوزہ

صمد بہرنگی

MORE BYصمد بہرنگی

    ایک بڑھیا تھی جس کا دنیا میں کوئی نہ تھا بس اس کا ایک سنہری چوزہ۔ اس چوزے کو بھی اس نے ایک دن خواب میں پایا تھا۔ بڑھیا ابٹن بناتی تھی اور غسل خانوں کے پاس لے جاکر بیچتی تھی۔بڑھیا کا سنہری چوزہ بھی اس کی جھونپڑی اور آنگن میں چیونٹیوں اور مکڑوں کے پیچھے پھرتا رہتا تھا۔ سنہری چوز ہے کی موجو دگی سے کوئی چیونٹا بڑھیا کی جھونپڑی اور آنگن میں قدم رکھنے کی ہمت نہیں کرتا تھا یہاں تک کہ تیز ماٹے اور پردار چیونٹے بھی۔ سنہری چوزہ چیونٹیوں کو اچھا اور برا سمجھے بغیر ٹونٹ مارتا اور بےتکلف کھا جاتا تھا۔ بس آوارہ بلیاں کبھی کبھی آتیں جو ایک بوٹی گوشت کے لئے اس جگہ اور اس جگہ جھانکتی پھرتیں۔

    بڑھیا کے آنگن میں اخروٹ کا ایک گھنا درخت بھی تھا جب اخروٹ کا موسم آتا تو سنہری چوزے کی بن آتی۔ ہوا چلتی، آخروٹ گرتے، چوزہ توڑتا اور کھاتا۔

    ایک مکڑے نے بھی بڑھیا کے اکیلے پن سے فائدہ اٹھاکر چھت کے لکڑے میں خالی ڈبوں کے پیچھے جالا بن کر جال پھیلایا تھا اور انڈے دیتا تھا بڑھیا کسی زمانہ میں ان ڈبوں میں طرح طرح کے عرق اور پودینہ کا سرکہ بناکر رکھتی اور انہیں بیچ کر اپنا پیٹ پالتی تھی۔ اس کے رنگ برنگے ڈبے اب خالی پڑے تھے۔

    مکڑے کا دل سنہری چوزے کی موجودگی کی وجہ سے مطمئن نہ تھا، ہمیشہ سوچتا رہتا تھا کہ آخر ایک روز اس کو سنہری چوزے کا شکار بننا پڑےگا۔ خاص طور سے یو ں بھی کہ کئی بار چوزے نے اسے چھت کی لکڑی کے پاس دیکھ لیا تھا اور اسے دھمکایا تھا کہ کسی نہ کسی روز اسے اپنا لقمہ بنائےگا۔ مکڑے کے کئی بچوں کو کھا بھی گیا تھا اور دوسرے یہ کہ سنہری چوزے نے چیونٹیوں اور ماٹوں کے چھوٹے بلوں کو کھوج نکالا تھا جو ہمیشہ جھوٹا کھانا تلاش کرنے کی فکر میں جنہیں بڑھیا ڈبوں کے پیچھے پھینک دیتی تھی رہتے تھے مکڑے کے لئے بھی خوب مزے میں ہاتھ آ جاتے تھے۔

    ایک رات بڑھیا سوتے میں بڑھیا کے پاس آیا اور اس سے کہا ’’اے بیچاری بڑھیا! تو کچھ جانتی ہے کہ یہ سنہری چوزہ کس طرح تیرے مال و دولت کو لوٹ کر کھا رہا ہے؟‘‘

    بڑھیا نے کہا۔’’ڈوب مر! میرا سنہری چوزہ اتنا نازک اور مہربان ہے کہ کبھی اس طرح کا کام کر ہی نہیں سکتا تھا۔‘‘

    مکڑا بولا ’’بس تم کو معلوم نہیں۔ تم نے تو چکوروں کی طرح اپنا سربرف میں ڈال رکھا ہے اور ساری دنیا سے بےخبر ہو۔‘‘

    بوڑھی عورت بےتاب ہوکر بولی’’تمہارا مطلب کیا ہے، صحیح صحیح بتا دو؟‘‘

    مکڑے نے جواب دیا ’’اس کا فائدہ کیا ہے۔ سنہری چوزے کے ناز اور نخرے نے تیری آنکھوں کو اتنا اندھا کر رکھا ہے کہ تم میری باتوں کا یقین ہی نہیں کروگی۔‘‘

    بڑھیا نے پریشان ہوکر کہا ’’اگر تمہارے پاس پکا ثبوت ہوگا کہ سنہری چوزہ میرا مال حرام کر رہا ہے ایسی سزادوں گی کہ چیونٹے بھی دیکھ کر رونے لگیں۔‘‘

    مکڑے نے جب دیکھا کہ بڑھیا کو خوب پرچا لیا ہے تو کہا ’’پس کان کھول کر سنو، میں بتاتا ہوں کہ اے بیچاری بڑھیا تو تو اپنی جان دے دے کر ابٹن بناتی ہے اور ان کا احسان اٹھاکر اپنا ابٹن لوگوں کے غسل خانوں میں لے جاکر بیچتی ہے اور ایک لقمہ روٹی حاصل کرتی ہے تاکہ اپنا پیٹ بھر سکے اور یہ گھمنڈی اور پیٹو چوزہ کو اسے بالکل احساس نہیں ہے کہ اس تمام اخروٹ میں سے کچھ تیرے لئے بھی بچاکر رکھ دے جنہیں بیچ کر تو دو چار دن آرام کی زندگی گزار سکے اور دن رات کا اچھا کھانا کھا سکے۔ اب تو تم نے یقین کیا کہ سنہری چوزہ تیرا مال حرام کر رہا ہے۔‘‘

    بڑھیا غصہ میں تیزی کے ساتھ نیند سے جاگ پڑی اور سنہری چوزے کے لئے پروگرام بنایا۔ صبح ابٹن بیچنے کے لئے نہیں گئی۔ اپنی جھونپڑ میں بیٹھی رہی اور سنہری چوزہ کو نگاہ میں لئے رہی جو بہت پہلے اٹھ کر سورج نکلنے کا تماشا دیکھ رہا تھا۔

    سنہری چوزہ اخروٹ کے پیڑ کے نیچے آیا اور اس سے بولا ’’پیڑ دوست ایک دوعدد گراؤ تاکہ میرا ناشتہ ہو‘‘

    اخروٹ نے اپنی ایک شاخ ہلاتی چند عدد پکے اخروٹ زمین پر گر پڑے۔ سنہری چوزے نے چاہا کہ آخروٹوں کی طرف دوڑ کر جاتے لیکن ادھر بڑھیا کی آواز سنائی دی۔ ’’اے پیلے چوزے! انہیں ہاتھ نہ لگاتا تجھے حق نہیں کہ میرے اخروٹوں کو توڑے اور کھائے۔‘‘

    سنہری چوزے نے بڑھیا کی طرف تعجب سے دیکھا اور معلوم ہوا کہ گویا یہ کوئی اور بڑھیا ہے: وہ خوش اور مہربان آنکھیں وہ ہنستا اور چمکتا چہرہ اور وہ پھول اور میٹھا منہ اب نہ پایا، کچھ نہ بولا: خاموش کھڑا رہ گیا۔ بڑھیا اس کے قریب آئی اور لات مار کر اسے دوسری طر ف ڈھکیل دیا، اخروٹوں کو اٹھا لیا اور اپنی جیب میں ڈال لیا۔

    سنہری چوزہ آخرکار بولا ’’اماں آج توتم عجیب قسم کی ہو گئی ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان تمہارے سرمیں داخل ہو گیا ہے۔‘‘

    بڑھیا بولی ’’بھاگ جا!۔۔۔ بہت ڈھیٹ ہو گیا ہے، ایک بار جب میں نے بتا دیا کہ میرے آخروٹوں کو کھانے کاحق تجھے نہیں ہے میں انہیں بیچنا چاہتی ہوں۔‘‘

    سنہری چوزے نے اپنا سر نیچے جھکا لیا اور جاکر درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ بوڑھی عورت جھونپڑی میں چلی گئی۔ تھوڑا وقت گزرا، چوزہ چل پھر کر پیڑ کے پاس جاکر بولا ’’اچھے دوست درخت ،دو ایک اور گرادے دیکھوں اس بار کیا ہوتا ہے آج تو میرا صبح کا ناشتہ بالکل زہر ہو گیا۔‘‘

    پیڑ نے اپنی ایک دوسری ڈال ہلائی اور چند عدد اخروٹ زمین پر گر گئے چوزہ تیزی سے دوڑا، انہیں توڑا اور کھا گیا۔ بڑھیا دوڑ پڑی اور چیخی ’’پیلے چوز ے اب میں تو تجھے بتاؤں گی کہ میرے اخروٹوں کو کھا جانے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔‘‘

    بڑھیا نے یہ کہا اور جاکر انگیٹھی جلائی پھر آکر سنہرے چوزے کو پکڑا اور انگیٹھی پر اس کی دم انگاروں پر رکھ دی۔ سنہری چوزے کی دم جھلس گئی اور جل گئی اخروٹ کا درخت زور سے ہلا اور بڑھیا کے سر پر اور چہرے پر اخروٹ گراکر اسے سخت زخمی کر دیا۔ بڑھیا نے چوزے کو چھوڑ دیا اور جب چاہا کہ اخروٹوں کو اکٹھا کرے تو دیکھا کہ سب پتھر کے ہیں۔ ایک نظر پیڑ پر ڈالی اور ایک چوزے پر اور پھر اپنے آپ پر اور پھر جھونپڑی میں جاکر بیٹھ گئی۔

    سنہری چوزہ اپنا سر اپنے پروں میں دیئے آنگن کے کونے میں دبکا بیٹھا تھا۔ کبھی اپنا سر باہر نکالتا اور اپنی جلی ہوئی دم دیکھتا اور پروں کے نوک سے آنکھوں کا آنسو پوچھتا تھا اور پھر اپنے اندر سکڑ جاتا تھا بڑھیا اپنے سنہری چوزے پر سے نگاہ نہیں ہٹاتی تھی۔

    ظہر کے قریب ہوا زور سے چلی اور تمام اخروٹوں کو ہلاکر گرا دیا۔ چوزہ اپنی جگہ سے نہ ہلا پھر ہوا چلی اور دوسرے اخروٹ گرائے اور سنہری چوزہ اسی طرح اپنے جسم میں سر ڈالے رہا اور ہلتا نہیں تھا جب تک شام ہوئے ہوئے اخروٹوں نے گر گرکر کوئی جگہ خالی نہ چھوڑی بڑھیا اسی طرح بیٹھی ہوئی تھی اور سنہری چوزے کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں دیکھ رہی تھی۔ اچانک ایک آواز سنائی جو کہہ رہی تھی اے بہادر بڑھیا تونے پیلے چوزے کو اس کی جگہ بٹھا دیا اب تو دیر کیوں کر رہی ہے؟ اٹھ جا اور اپنے آخروٹوں کو چن اور بیچنے کے لئے لے جا۔ سورج ڈوبنے جا رہا ہے اور رات آ پہنچی۔

    بوڑھی عورت نے گردن گھماکر دیکھا کہ ایک زبردست مکڑا چھت کے اوپر سے نیچے رینگتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے پیر کی ایک جوتی اس کے پاس پڑی ہوئی تھی اسے اٹھایا اور زور سے مکڑے کی طرف کھینچ ماری۔ تھوڑی دیر بعد مکڑے کی صرف تصویر دیواروں پر دکھائی دے رہی تھی۔ اس وقت بڑھیا نے اپنی چادر کے کونے سے اپنی آنکھوں کے آنسو پوچھے اور اٹھ کر اپنے سنہری چوزے کے پاس گئی اور اس سے بولی ’’میرے اچھے اور مہربان چوزے۔ اخرروٹ تیرے قدموں تلے بکھرے پڑے ہیں نہیں چاہتے انہیں توڑکر کھاؤ؟‘‘

    ’’بڑھیا، اتنی جلدی تم بھول گئیں کہ تم نے میری دم جلا دی؟‘‘

    بوڑھی عورت نے اپنے ہاتھوں کو اپنے سنہری چوزے پرمحبت اور مہربانی سے پھیرا اور بولی’’میرے نخرے بگھارنے والے اچھے مہربان چوزے آخروٹ تیرے قدموں میں بکھرے پڑے ہیں کیا انہیں توڑکر نہیں کھائےگا؟‘‘

    سنہری چوزے نے اس بار اپنی گردن اونچی کی اور بڑھیا کی طرف دیکھا کہ وہ پرانی خوش اور مہربان آنکھیں، وہ ہنستا اور مسکراتا چہرہ اور وہ پھول سا میٹھا منہ پھر لوٹ آیا ہے۔ بولا ’’میں کیوں نہیں چاہتا ہوں، اماں پیاری تو میرے زخموں پر مرہم بھی رکھےگی؟‘‘

    بڑھیا بولی : کیوں نہیں میرے نخرے بگھار، مہربان سنہری چوزے۔ اٹھ چل ہم جھونپڑی میں چلیں۔

    اس رات بڑھیا اور سنہری چوزے کے کھانے کے دسترخوان پر صرف اخرروٹ کی گودی تھی۔ صبح جب بوڑھی عورت جاگی تو اٹھی اور جہاں کہیں بھی کونے کترنےمیں مکڑے کا جالا تھا اسے صاف کیا اور جھاڑ پونچھ کر باہر پھینک دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے