Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بوری

MORE BYجاوید بسام

    ماسٹر حمید الدین سر جھکائے تھانے میں بیٹھے تھے، نگاہیں فرش پر جمی تھیں، تھانیدار پیپرویٹ سے کھیلتے ہوئے پر خیال نظروں سے انہیں گھور رہا تھا۔ ان کی کہنیاں گھٹنوں پر ٹکی تھیں۔ وہ گھبراہٹ اور شرمندگی سے ہاتھوں کو رگڑ رہے تھے، وقفے وقفے سے ستواں ناک پر پھسل آنے والے چشمے کو اوپر کر لیتے، کشادہ پیشانی پر عرق ندامت بھی چمک رہا تھا۔

    تھانے میں چند اور لوگ بھی نظر آ رہے تھے ان میں دو خواتین اور صاحب شامل تھے۔ خواتین آپس میں کھسر پھسر کر رہی تھیں، وہ بار بار تھانے کے فرش پر رکھی بوری کی طرف دیکھتیں، جس کا منہ مضبوطی سے باندھا گیا تھا۔

    ’’سنتے تھے کہ بلی بھی ساتھ گھر چھوڑ کر منہ مارتی ہے لیکن ماسٹر صاحب نے تو دوست کا گھر بھینہ چھوڑا‘‘۔ ایک خاتون نے سرگوشی کی۔

    ’’ہاں بہن بہت برا زمانہ آ گیا ہے‘‘۔ دوسری بولیں۔

    ’’پتا نہیں کیا کچھ اڑا لیا تھا’، پروفیسر مرحوم کا بیٹا فرانس سے ایک سے ایک کرسٹل کے شوپیس لایا کرتا تھا‘‘۔ پہلی خاتون پر اشتیاق نظروں سے بوری کو تکتے ہوئے بولیں۔

    ’’جب بوری کھلے گی تو پتا چلےگا، نہ جانے پروفیسر کی بیٹی کب آئےگی‘‘۔ دوسری گھڑی دیکھتے ہوئے بولیں۔

    پروفیسر عظمت اور ماسٹر حمید الدین آپس میں گہرے دوست تھے۔ ان کے مشاغل یکساں تھے۔ دونوں علم و ادب کے رسیا تھے۔ لکھنے لکھانے سے بھی دلچسپی تھی۔ دونوں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو چکے تھے۔ گو کہ ان میں بہت بڑا طبقاتی فرق تھا لیکن روز ہی ملاقات کرتے تھے۔ ماسٹر ان کے بنگلے سےکچھ دور ایک متوسط طبقے کی آبادی میں رہتے تھے، وہ سرشام ہی پروفیسر کے ہاں چلے آتے اور رات گئے واپس جاتے۔ پروفیسر صاحب ان پر بہت اعتماد کرتےتھے، انہیں گھر کی چابی تک دے رکھی تھی۔

    ایک دن پروفیسر صاحب خاموشی سے انتقال کر گئے۔ بیوی کاپہلےہی انتقال ہو چکا تھا۔ اولادوں میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھے۔ بیٹا فرانس میں تھا، بیٹی اسی شہر میں رہتی تھی، اب مہینے بھر سے گھر خالی پڑا تھا۔

    ایک سرخ رساں پڑوسن نے ماسٹر صاحب کو نو بجے کے وقت پروفیسر صاحب کی روش پر ٹہلتے دیکھا۔ وہ بجری پر چلتے دروازے تک گئے پھر واپس پلٹ گئے، ان کے بغل میں ایک بوری دبی تھی، پڑوسن نے جلدی سے دوربین نکال لی، ماسٹر صاحب واپس آ رہے تھے، دروازے تک آکر صاحب واپس آ رہے تھے، دروازے تک آکر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا اور جیبیں ٹٹولنے لگے۔ پڑوسن پردے کی آڑ سے نظر رکھے ہوئے تھیں۔ انہوں نے چابی نکال کر دروازہ کھولا اور اندر چلے گئے۔ پڑوسن نے فوراً اپنے میاں صاحب کو بتایا۔ دونوں اپنے دروازے پر آ کھڑے ہوئے، ایک اور پڑوسن بھی انہیں دیکھ کر وہاں آ گئیں۔ پروفیسر کے بنگلے میں مختلف کمروں کی بتیاں جلتی بجھتی رہیں پھر اسٹڈی (کمرہ مطالعہ) کی بتی دیر تک جلتی رہی۔

    ’’پولیس کو اطلاع دینی چاہئے‘‘۔ میاں صاحب بولے اور ایمرجنسی نمبر پر فون کیا۔ پولیس موبائل قریب ہی کہیں موجود تھی۔ وہ دس منٹ میں پہنچ گئے جس وقت پولیس آئی۔ ماسٹر صاحب بوری کندھے پر اٹھائے بوجھ سے دھرے ہوئے باہر نکلے تھے۔ پولیس کو دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئے۔ پھر بے چوں و چرا تھانے چلے آئے اور اب شرمندگی کا مجسمہ بنے بیٹھے تھے۔ پروفیسر صاحب کی بیٹی کا انتظار تھا۔

    باہر گاڑی آکر رکی۔ ’’میرا خیال ہے آپ لوگوں کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے‘‘۔ بیٹی بیٹھتے ہوئے بولی۔ ’’بی بی! آپ نے ابھی دنیا نہیں دیکھی، ہم نے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے‘‘ تھانیدار تیزی سے بولا پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا: ’’آئیں دیکھتے ہیں کیا کچھ سمیٹا ہے، کیس تو پکا ہے‘‘۔

    اس نے بوری کا منہ کھول کر اندر جھانکا۔ سب کی نظریں بوری پر جمی تھیں۔ اس نے بوری کو الٹنے کے لیے نیچے ہاتھ ڈالا۔

    ’’ذرا احتیاط سے!‘‘ ایک خاتون کے منہ سے بےاختیار نکلا۔

    تھانیدار نے بوری فرش پر الٹ دی۔ ڈھیر ساری کتابیں فرش پر پھسلتی چلی گئیں۔ سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔

    ’’ہائیں! انکل آپ کتابیں لینے آئے تھے؟‘‘ بیٹی حیرانگی سے بولی۔ ماسٹر صاحب نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور ہکلا کر بولے۔ ’’جی۔۔۔ میں پروفیسر صاحب سے کتابیں لے کر پڑھتا رہتا تھا ان کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ رک گیا، دراصل کتابیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ غریب آدمی خرید ہی نہیں سکتا، مطالعہ کی طلب مجھے وہاں کھینچ کر لے گئی، میرے پاس چابی تھی، میں نے سوچا ایک ساتھ بہت سی کتابیں لے آتا ہوں، پڑھ کر واپس رکھ آؤں گا۔ میری چوری کی نیت نہیں تھی‘‘۔ وہ اٹک اٹک کر بول رہے تھے۔

    ’’انکل آپ مجھے فون کردیتے میں آکر دے دیتی‘‘۔

    ’’میرے پاس تمہارا نمبر نہیں تھا‘‘۔

    بیٹی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی: ’’آپ کو تو شاید ابو کی وصیت کا بھی پتا نہیں ہوگا۔ اس میں انہوں نے سب کتابیں آپ کو دینے کا ہی لکھا ہے، بھائی کا انتظار ہے وہ آ جائے تووصیت پر عمل کریں‘‘۔

    ماسٹر صاحب غمزدہ بیٹھے تھے۔ تھانیدار تیزی سے کچھ سوچ رہا تھا۔ پروفیسر کی بیٹی تھانیدار کے خیالات کو بھانپ کر معاملے کو نمٹاتے ہوئے بولی: ’’لائیں انکل چابی مجھ کو دے دیں آپ کو جب بھی کتابوں کی ضرورت ہو مجھے فون کر دیا کریں۔ آئیں میں آپ کو گھر چھوڑ دیتی ہوں، کتابیں بھی لے لیں یہ تو آپ کی ہی ہیں‘‘۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

    تھانیدار ہار مان کر بےزاری سے کسی کو فون کرنے لگا۔ خواتین جمائیاں لیتے ہوئے پلکیں جھپکا رہی تھیں۔ میاں صاحب اٹھتے ہوئے بولے۔ ’’خواہ مخواہ اتنا وقت برباد ہوا‘‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے