بلبل اداس ہے
سورج غروب ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔ افق پر نارنجی روشنی ابھی باقی تھی۔ آبادی سے دور خشک ہوتے تالاب میں مینڈک ٹرٹرا رہے تھے۔ جھینگر بھی وقفے وقفے سے اپنا راگ الاپتے اور چپ کر جاتے جیسے رات کے لئے اپنے آلات چیک کر رہے ہوں۔ قریب ہی ایک سوکھے درخت کی شاخ پر ایک بلبل اداس بیٹھا تھا۔ وہ نہ تو ہل جل رہا تھا نہ کچھ بول رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے چہچہانا بھول گیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں اداسی تیر رہی تھی۔
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دور ایک جگنو ارتا نظر آیا۔ بلبل پر نظر پرتے ہی وہ سیدھا اس کے پاس چلا آیا اور پرجوش لہجے میں بولا: ’’پیارے بلبل! مجھے معلوم ہے تم کیوں اداس بیٹھے ہو۔ تمہیں اپنے گھر جانا ہے لیکن اندھیرا ہو گیا ہے، آؤ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ ایک عرصے بعد آج مجھے نیکی کمانے کا پھر موقع ملا رہا ہے۔ میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں‘‘۔
’’کیوں، کیا تمہیں اپنے گھر نہیں جانا؟‘‘ جگنو تیزی سے بولا۔
’’نہیں مجھے کہیں نہیں جانا، اس لئے کہ میرا گھر برباد ہو چکا ہے‘‘۔
’’تمہارے گھر کو کیا ہوا؟‘‘ جگنو نے حیرت سے پوچھا۔
’’جس درخت پر میرا گھونسلا تھا اسے کاٹ دیا گیا ہے بلکہ آس پاس کے سب درخت کٹ گئے ہیں‘‘۔ بلبل بھرائی ہوئی آواز میں بولا:
’’ہاں، یہاں تو بہت درخت تھے لیکن اب ایک بھی نظر نہیں آ رہا، آخر درخت کیوں کاٹے گئے ہیں‘‘۔ جگنو نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’تمہیں وہ شاہراہ نظر آ رہی ہے؟ اس کو چوڑا کرنے کے لئے‘‘۔ بلبل نے کچھ دور سے گزرتی سڑک کی طرف اشارہ کیا۔
’’اوہ! اب میری سمجھ میں آیا لیکن دوسری طرف اتنی زمین بھی کوئی دینے پر تیار نہیں تھا لہٰذا حکومت نے ان تمام پرانے پیڑوں کو کاٹ ڈالا جو گزرنے والوں کو سایہ فراہم کرتے تھے اور ہزاروں پرندوں کے بسیرے کی جگہ تھے‘‘۔ بلبل نے کہا۔
جگنو نے افسوس سے گردن ہلائی اور بولا: ’’انسان زمین کا دشمن بن گیا ہے۔ وہ دن بدن اس کو برباد کر رہا ہے۔ جنگل کاٹے جا رہے ہیں جس سے موسم بدل رہے ہیں اور جگہ جگہ تباہی آ رہی ہے۔ انسان کے ساتھ ساتھ اس سے جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے لیکن اسے اس کا احساس نہیں‘‘۔
بلبل نے آہ بھری اور بولا: ’’میرے سب ساتھ یہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں کل میں بھی یہاں سے چلا جاؤں گا‘‘۔ دونوں خاموش ہو گئے اور افق پر اس بدلی کو تکنے لگے جس میں ابھی روشنی کی کچھ کرنیں باقی تھیں۔ پھر جگنو دھیرے سے بولا: ’’حالات بہت خراب ہیں لیکن ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ انسانوں میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں اس تباہی کا احساس ہے اور وہ اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر بچے، انہیں تو درخت اور پودے بہت اچھے لگتے ہیں‘‘۔
بلبل نے گردن ہلائی اور بولا: ’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہماری بقا انسانوں کی نئی نسل کے ہاتھوں میں ہے‘‘۔ دونوں خاموش ہو گئے۔
جب اندھیرا بڑھ گیا تو جگنو روشنی پھیلاتا ایک طرف اڑ گیا اور بلبل نے اپنی چونچ پروں میں چھپا کر آنکھیں موند لیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.