Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

برے پھنسے

عمران مشتاق

برے پھنسے

عمران مشتاق

MORE BYعمران مشتاق

    رئیس جب برطانہ مانچسٹر آیا تو اس کی عمر صرف تین سال تھی۔ اب وہ گیارہ سال کا تھا اور مانچسٹر گرامر اسکول میں ائیر سیون (ساتویں جماعت) میں پڑھتا تھا۔ جو کہ علاقے کا سب سے بہترین اسکول تھا اور مقابلے کے امتحان کو پاس کرنے کے بعد اس میں داخلہ ملتا تھا۔ رئیس کے ابو کا اپنا کاروبار تھا اور وہ خاصی سہولت سے زندگی گزار رہے تھے۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا کہ اچانک رئیس کو ایک مشکل نے آ گھیرا۔ وہ بے حد لائق اور محنتی طالب علم تھا۔ دو انگریز بچے آرتھر اور بوب اس سے جلنے لگے اور موقع کی تلاش میں رہنے لگے تاکہ اسے نقصان پہنچا سکیں۔ ویسے تو وہ دونوں بھی لائق تھے مگر اب تک کے ٹیسٹوں میں ان کے نمبرز رئیس سے کم آئے تھے۔ اس بات کا انہیں بڑا صدمہ تھا کہ ایک پاکستانی لڑکا ان سے آگے کیسے نکل گیا۔ انہیں جب بھی موقع ملتا تو اس کو مذاق کا نشانہ بناتے۔ اس پہ آوازیں کستے اور تضحیک آمیز جملوں سے اسے تکلیف پہنچاتے۔ رئیس بڑی بہادری سے ان حالات کا مقابل کر رہا تھا اور اس نے اب تک اپنے والدین کو اس بات کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا۔

    سائنس کا ٹیسٹ ہو رہا تھا۔ سائنس کے ٹیچر جیکسن مائر طبیعت کے سخت تھے اور ان سے سارے لڑکے ڈرتے تھے۔ سارے لڑکے سوال حل کرنے میں مصروف تھے۔ وہ گھوم پھر کر کلاس کا چکر لگا رہے تھے۔ چکر کے دوران وہ اچانک زمین پہ جھکے اور انہوں نے کوئی چیز اٹھائی۔ وہ مڑا تڑا کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا۔ آرتھر نے انہیں کاغذ اٹھاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ فوراً اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ مائر صاحب نے اس کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا۔

    آرتھر فوراً بول پڑا۔ ’’سر! یہ کاغذ کا ٹکڑا میں نے رئیس کو زمین پر گراتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘

    بوب نے بھی آرتھر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ ’’آرتھر ٹھیک کہہ رہا ہے۔ شاید رئیس کو سوالات کے جوابات نہیں آتے اس لیے نقل کر رہا ہوگا۔‘‘

    مائر صاحب نے بوب کی طرف آتے ہوئے پوچھا۔ ’’تمہیں اس بات کا کیوں یقین ہے کہ رئیس نقل کر رہا تھا؟‘‘

    بوب نے قصداً جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔’’سر! میں نےپہلے بھی اسے نقل کرتے ہوئے دیکھا ہے اور سمجھایا بھی ہے کہ ایسا نہ کرو۔‘‘

    آرتھر نے بھی بولنا ضروری سمجھا۔ کہنےلگا۔ ’’سر! میں نے بھی سمجھایا تھا مگر رئیس نہیں مانا۔ اسے تو بس الٹے سیدھے طریقے سے سب سے زیادہ نمبر لینے کا شوق ہے۔‘‘

    مائر صاحب نے کاغذ کی سلوٹیں درست کیں اور پھر اس پہ لکھی ہوئی ہوئی تحریر دل ہی دل میں پڑھنے لگے۔ رئیس بیچارہ اس ساری صورت حال سے سخت پریشان تھا۔ اسے سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے آرتھر اور بوب کے چہرے پہ اپنے لیے حقارت کے آثار دیکھ لیے تھے۔ اسے دال میں کالا لگ رہا تھا مگر کیا؟

    مائر صاحب نے کاغذ کو دوبارہ تہہ کر کے اپنی جیب میں رکھ لیا اور پھر وہ رئیس کی طرف دیکھنے لگے۔ رئیس گھبرا گیا اور کہنے لگا۔’’سر! میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں تو ٹیسٹ میں اتنا مصروف تھا کہ مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ میرے آس پاس کیا ہو رہا ہے؟‘‘ رئیس گھبرایا ہوا ضرور تھا مگر اس کے لہجے میں کوئی کمزوری نہیں تھی۔

    ’’چلو تم اپنا ٹیسٹ مکمل کرو اور تم دونوں بھی۔‘‘ پہلے انہوں نے رئیس کو تاکید کی اور پھر آرتھر اور بوب کو اپنی سیٹوں پہ بیٹھنے کے لیے کہا۔

    آرتھر اور بوب دونوں نے مایوسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ یہ دونوں کی ملی بھگت تھی۔ بوب نے موقع پاتے ہی وہ کاغذ کا ٹکڑا رئیس کی ڈیسک کے پاس پھینکا تھا۔ وہ تو رئیس کو ’’رنگے ہاتھوں‘‘ پکڑوانے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے۔ مگر کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔

    ٹیسٹ کے اختتام پر مائر صاحب نے رئیس کو اپنے دفتر میں آنے کے لئے کہا تو رئیس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ آرتھر اور بوب کے چہرے دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ رئیس اب بری طرح پھنس چکا ہے۔

    رئیس کلاس میں واپس آیا تو اس کے چہرے سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ بوب اور آرتھر کا تجسس کے مارے برا حال تھا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ رئیس سے تفصیل پوچھیں کہ مائر صاحب کی طرف سے ان کے لیے بلاوہ آ گیا۔ دونوں مائر صاحب کے کمرے میں پہنچے تو ان کے دل دھک دھک کر رہے تھے۔

    مائر صاحب نے گہری نظر سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم دونوں نے ایسا کیوں کیا؟‘‘

    آرتھر نے گڑبڑاتے ہوئے جواب دیا۔’’سس۔۔۔سر۔۔۔۔ہم نے تو کچھ کیا۔‘‘

    وہ بوب کی جانب مڑے۔ ’’اور تم۔۔۔؟‘‘بوب کی حالت اس سوال جواب سے بری ہو رہی تھی۔ کہنے لگا۔ ’’سر رئیس نے نقل کی ہے۔ آپ اسے سزا دیں۔‘‘

    مائر صاحب نے اسے گھورتے ہوئے سخت لہجہ اختیار کیا۔ ’’فضول باتیں نہ کرو اور نہ ہی زیادہ ہوشیار بننے کی کوشش کرو۔ میں نے تمہیں خود وہ کاغذ پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘ مائر صاحب نے اندھیرے میں تیر چھوڑا تھا۔

    بوب ان کے چکر میں نہیں آیا بلکہ اس نے صاف مکرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’نہیں سر میں نے نہیں پھینکا تھا۔‘‘

    مائر صاحب نے دونوں کو وارننگ دی۔ ’’کل میں تم دونوں کے والدین کو بلا رہا ہوں۔ یہ سیریس معاملہ ہے۔‘‘ انہیں رئیس نے یہ بات بتا دی تھی کہ دونوں اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

    اگلے دن دونوں کے والدین اسکول آئے اور مائر صاحب نے انہیں ساری بات بتا دی۔ بوب اور آرتھر کے والدین یہ سن کر بے حد شرمندہ ہوئے۔ مائر صاحب نے انہیں بتایا کہ ’’دونوں رئیس سے جلتے تھے اور اسے پھنسوانا چاہتے تھے لیکن اس کی بجائے دونوں خود ہی برے پھنسے۔ بوب نے ایک کاغذ پر کئی سوالوں کےجواب لکھ کر وہ کاغذ رئیس کے قریب اس امید پہ پھینک دیا تھا کہ وہ نقل کرتے ہوئے پکڑا جائےگا۔ بوب سے غلطی یہ ہوئی کہ ٹیسٹ سائنس کا تھا اور جو کاغذ اس نے پھینکا اس پہ ریاضی کے سوالات لکھے ہوئے تھے۔‘‘

    بوب نے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’اس نے آرتھر کے ساتھ مل کر ریاضی اور سائنس دونوں کے ٹیسٹ کے لیے مواد تیار کیا تھا۔ اگر سائنس کے ٹیسٹ کے لیے مواد تیار کیا تھا۔ اگر سائنس کے ٹیسٹ میں کامیابی نہ ہوتی تو پھر ریاضی کے ٹیسٹ میں کوشش کی جاتی ۔ غلطی سے سائنس کے ٹیسٹ میں اس نے جیب سے ریاضی والا کاغذ نکالا اور دیکھے بنائ ہی پھینک دیا تھا۔‘‘

    مائر صاحب نے دونوں کو سخت سرزنش کرتے ہوئے، رئیس سے معافی مانگنے کی تلقین کی ورنہ سزا تو لازمی تھی۔ دونوں نے رئیس سے معافی مانگی۔ اس نے فراخ دلی سے دونوں کو معاف کر دیا۔ آج تینوں بہترین دوست ہیں اور ان کی دوستی کی مثال دی جاتی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے