بزدل چیتا بہادر شکاری
جب میں خان صاحب کے گھر پہنچا تو وہاں حسب معمول مجمع لگا ہوا تھا۔ خان صاحب بہت خوش مزاج، مہمان نواز اور یا باش آدمی تھے اور ہمارے ابا کے دوست تھے۔ ان کے گھر روزانہ شام کو بے فکروں کی محفل جمتی، خوش گپیاں ہوتیں بلکہ بعض اوقات تو صرف گپیں ہی ہوتیں۔ خاص طور پر جس دن خان صاحب کے شکاری دوست سیٹھ افریقہ والے آتے، اس دن تو بڑے دلچسپ اور ناقابل یقین واقعات سننے کو ملتے۔ اس دن بھی سیٹھ افریقہ والا آئے ہوئے تھے اور افریقہ میں اپنے شکار کے واقعات سنا رہے تھے۔ وہ دراصل افریقہ میں خاصا عرصہ تھے تھے اور وہاں ان کا کاروبار تھا۔ اس لیے ان کا نام سیٹھ افریقہ والا پڑ گیا۔ میں خان صاحب کے گھر پہنچ کر ایک کونے میں دبک گیا جہاں دوسرے بچے اور میرے دوست ٹلو میاں پہلے سے موجود تھے۔
جب میں خان صاحب کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو سیٹھ افریقہ والا کہہ رہے تھے ’’بس جناب، میرا درخت سے کودنا غضب ہو گیا۔ وہ خوں خوار چیتا قریب ہی جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ میرے کودتے ہی جھاڑیوں سے نکلا اور مجھ پر حملہ کرنے کو ہی تھا کہ میں سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں؟ وہ موذی چند لمحوں میں مجھے آ لیتا کہ مجھے ایک ترکیب سوجھی۔
جنگل میں افریقہ کے لوگوں نے جانوروں کو پکڑنے کے لئے گڑھے کھود رکھے تھے اور ان پر درحتوں کی شاخیں اور پتے وغیرہ ڈال کر انہیں چھپا دیا تھا تاکہ جانور ان پر پاؤں رکھیں تو گڑھے میں جا گریں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ میں نے ایک گڑھے پر سے شاخیں اور پتے ہٹائے او اللہ کا نام لے کر غڑاپ سے اندر کود گیا۔ میرا خیال تھا کہ چیتا مرا پیچھا کرتا ہوا اس چھ فٹ گہرے گڑھے میں تو کودنے سے رہا۔ لیکن صاحب، یہ دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ چتیا گڑھے کے کنار پر کھڑا مجھے خونی نطروں سے گھور رہا ہے اور پھر آن کی آن میں اس نے گڑھے میں چھلانگ لگا دی۔ اگر میں پہلو بدل کر ایک طرف جھکائی نہ دے دیتا تو وہ ظالم سیدھا میرے اوپر ہی گرتا۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید دہشت ہی سے اس کا دم نکل جاتا لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ میری پوری زندگی افریقہ کے خوفناک جنگلوں میں درندوں سے دو دو ہاتھ کرتے گزری ہے۔ میں ذرا نہ گھبرایا۔‘‘
سیٹھ افریقہ والا کا بیان لوگ بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے لیکن جب انہوں نے کچھ زیادہ ہی ڈینگیں مارنا شروع کیں تو کچھ لوگ مسکرائے بھی لیکن وہ اپنی دھن میں بےخبر کہتے گئے، ’’بس جناب، اسی وقت میرے ذہن میں ایک ایسی ترکیب آئی کہ کچھ دیر کے لئے تو حود میں بھی حیران رہ گیا۔ جانور آگ سے بہت ڈرتے ہیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ اسے بھی آگ سے ڈرایا جائے۔ میں نے فوراً جیب سے سگرٹ لائٹر نکال کر جلایا۔ چیتا مجھ پر چھلانگ لگانے والی ہی تھا کہ سگریٹ لائٹر کا شعلہ بھڑکا۔ وہ دوڑ کر پیچھے ہٹ گیا۔ اب تو میں بھی شیر ہو گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر لائٹر کے شعلے سے اس کی داہنی مونچھ کے بال جلانا شروع کر دیے۔ چیتا اچھل کر پیچھے ہٹا اور بڑی دردناک آواز میں دھاڑا۔
اف وہ دھاڑ! خدا کی پناہ! کمزور دل والے تو اس دھاڑ کو سنتے ہی فوت ہو جاتے، لیکن میں نے ایک بھر پور قہقہہ لگایا اور پھر ہاتھ آگے بڑھایا کہ اس کی بائیں مونچھ بھی جلا دوں۔ یہ دیکھتے ہی اس نے مجھے چھوڑ کر اوپر چھلانگ لگائی اور گڑھے سے باہر نکلنے کو ہی تھا کہ میں نے لپک کر اس کی دم پکڑ لی۔ اب اس کے اگلے دوپاؤں گڑھے کے کنارے پر ہیں، پچھلے دو گڑھے کے اندر اور میں پیچھے سے اس کی دم مروڑ رہا ہوں۔ ذرا سوچئے کہ کیا منظر ہوگا۔‘‘ سیٹھ افریقہ والا نے کہا اور اپنے برابر بیھے ہوئے ملک صاحب کی پیٹھ پر زور سے ایک ہاتھ رسید کیا۔ ملک صاحب ڈر کے مارے چونکے۔ سب نے قہقہہ لگایا جس میں سب سے بلند قہقہہ سیٹھ افریقہ والا کا تھا۔
خان صاحب کی نظریں تو اپنے دوست سیٹھ افریقہ والا پر تھیں لیکن ان کا ہاتھ مونچھ مروڑ رہا تھا اور ہونٹوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی دراصل انہوں نے اسی مسکراہٹ کو چھپانے کے لئے مونچھوں کو تاؤ دینے کے بہانے چہرے کے آگے ہاتھ رکھ لیا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ انہیں اپنے دوست کی باتوں پر ذرہ برابر یقین نہیں آرہا۔ کچھ اور لوگ بھی بےیقینی کے عالم میں بیٹھے تھے۔ البتہ بچے سہمے ہوئے تھے۔ خود میرا دل دھڑ دھڑ کر رہا تھا۔ لیکن ٹلو میاں کی آنکھوں میں شرارت کی چمک تھی۔
’’لیکن میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ آج اس بزدل چیتے کو چھوڑنا نہیں ہے۔‘‘ سیٹھ صاحب نے کہنا شروع کیا ’’کمبخت کی وجہ سے مجھے گڑھے میں گرنا پڑا تھا۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اب اسی کے سہارے باہر نکلوں گا۔ جب اس نے دیکھا کہ میں اس کی دم نہیں چھوڑ رہا تو وہ گڑھے کا کنارہ چھوڑ کر سیدھا کھڑا ہو گیا اور بےچارگی سے مجھے دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو کہ پلیز مجھے جانے دو لیکن میں سگریٹ لائٹر آگے کر دیا۔ یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ باہر نکلیں گے تو دونوں ورنہ تمہیں یہیں جلا کر خاک کر دوں گا۔ وہ میرا اشارہ سجھ گیا۔ اگلی دفعہ جب اس نے باہر کی طرف چھلانگ لگائی تو میں اس کی دم پکڑ کر لٹک گیا۔ وہ زور لگاتا رہا یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ایک ایک انچ کھسکتا ہوا تھوڑا باہر نکل گیا۔ میں اس کی دم سے چمٹا ہوا تھا۔
خیر صاحب، گڑھے سے باہر نکلتے ہی میں نے اس کی دم چھوڑ دی اور وہ دم دبا کر بھاگ گیا۔ سوچتا ہوگا کہ یہ کون سی بلا گلے پڑ گئی۔ بزدل گیدڑ کہیں کا!‘‘
ابھی افریقہ والا صاحب نے اپنی بات پوری کی ہی تھی کہ ان کی گود میں ایک مردہ چوہا آکر گرا۔ انہوں نے ایک ہول ناک چیخ ماری اور اچھل کر صوفے پر کھڑے ہو گئے۔ چوہا بھی ان کے اچھلنے سے اچھلا اور میز پر جاگرا۔ افریقہ والا نے ایک اور چیخن ماری اور پھر بیہوش ہو گئے۔ ان کو ہوش میں لانے کے لئے لوگوں کو بہت محنت کرنی پڑی۔ اس کے بعد ٹلو میاں کی ڈھنڈیا پڑی۔ لیکن وہ بھلا وہاں کہاں ملتے۔ آخر انہیں چوہے والے ہاتھ بھی تو دھونے تھے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.