ہمارے چچاجان اچھا کھاتے ہیں، اچھا پہنتے ہیں۔ یوں دیکھنے میں انہیں کوئی پریشانی یا کسی قسم کی تکلیف نہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ رنجیدہ اور پریشان رہتے ہیں۔ ہم نے تو کبھی انہیں خوش نہیں دیکھا۔ جب دیکھو ان کامنہ پھولا ہوا ہے۔ بھویں تنی ہوئی ہیں۔ چچا ہمیشہ دودھاری تلوار بنے رہتے ہیں۔ کبھی ایک کے سر پر برسے کبھی دوسرے کے سر پر گرے۔ دنیا میں بڑے سے بڑا واقعہ بھی ہو جائے توانہیں فکرنہیں ہوتی۔ انہیں فکر رہتی ہے تو بس اس بات کی کہ یہ شخص صحیح اور کھڑی اردو بولے۔ اس کا تلفظ صحیح ہو اور ہر بات میں کوئی نہ کوئی محاورہ ہو۔ محاورے بولنے میں چچا کو کمال حاصل ہے۔ وہ ایک چھوٹا سا جملہ بھی بولیں گے تو اس میں کم سے کم تین محاورے ضرور ہوں گے۔ بات تو خیر وہ کرتے ہی نہیں صرف ڈانٹتے ہیں، لیکن ان کی ڈانٹ بھی چٹخارےدار زبان میں ہوتی ہے کہ ڈانٹ کھانے کا مزہ آ جائے۔ چچاجان کے سامنے زبان کھولنا، اپنی شامت بلانا ہے۔ ادھر زبان کھولی نہیں کہ پکڑی گئی۔ فرمائیں گے ’’یہ ہم نے کیا سنا یہ مرغ کس نے کہا؟ یہ امجد میاں ہوں گے۔ امجد میاں تو سارے گھرکی زبان بگاڑ کر رکھ دیں گے۔ میاں ہم نے تم سے کچھ نہیں تو پچاس بار ضرور کہا ہوگا کہ مرغ نہیں، مرغ کہا کرو۔ اس کا ’ر‘ ساکن ہے۔ مرغ کہنے میں اگر تکلیف ہوتی ہو تو مرغا کہا کرو، لیکن خدا کے لئے مرغ کہہ کر ہمیں چڑایا نہ کرو‘‘۔
لیجئے صاحب، صرف ایک لفظ زبان سے نکلا اور چچاجان نے آڑے ہاتھوں لیا۔
تلفظ اور قواعد درست کرنے میں تو چچاجان، جان پر کھیل جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ تو وہ ریلوے اسٹیشن پر ایک اجنبی آدمی سے لپٹ پڑے اس بچارے نے کہیں قلی سے کہہ دیا کہ ’’جلدی کرو‘‘ ٹرین پکڑنا ہے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ چچاجان، جان نہ پہچان، لپکے اس کی طرف اور فرمایا: ’’حضرت معاف کیجئے، میرا آپ کا تعارف تو نہیں لیکن آپ کی زبان سے غلط اردو سن کر میں رہ نہیں سکا۔ حضرت! ٹرین پکڑنا صحیح نہیں۔ ٹرین پکڑنی ہے، کہنا چاہئے، کیوں کہ ٹرین مؤنث ہے۔‘‘
اب کیا تھا جناب، ان حضرت نے ٹرین کا خیال تو چھوڑ دیا اور چچاجان کو پکڑ لیا۔ جب ٹرین نے سیٹی دی تو معاملہ چکا۔ اس پر بھی چچاجان مانے نہیں۔ کہنے لگے کہ ’’اچھا ہوا وہ شہر چھوڑ کر چلا گیا، ورنہ سارا شہر غلط اردو بولنے لگتا‘‘۔
چچاجان ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کے بھتیجے اور بھتیجیاں اچھے اچھے محاورے بولنا سیکھیں۔ وہ باری باری سے ایک ایک کو پکڑ کر محاورے بولنا سکھاتے ہیں۔ محاورے رٹا کر بچوں کو اسکول میں چھوڑ دینا، چچاجان کا خاص مشغلہ ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جب کبھی چچاجان کا رٹایا ہوا محاورہ بچے نے اسکول میں دہرایا وہ ضرور پٹا۔ نجمہ بچاری ایک دن اپنی استانی نزہت آپا سے پٹ گئی اس دن شاید اسکول میں کھانا پکانے کی کلاس ہو رہی تھی۔ کہیں آٹے کا بھوسا اڑ کر نزہت آپا کے بالوں میں پڑ گیا۔ اپنے چچا کی بھتیجی نجمہ نے فوراً اپنی استانی سے کہا ’’نزہت آپا، آپ کے سر میں تو بھوسا بھرا ہوا ہے‘‘ ساری لڑکیاں ہنس پڑیں۔ نزہت آپا غصے سے لال پیلی ہو گئیں، لیکن نجمہ نے دیکھا تک نہیں اور ان سے کہا ’’لائیے آپا، آپ کا سرصاف کر دوں، بس اس کے بعد نزہت آپا نے اپنا سرتوصاف نہیں کیا، لیکن نجمہ پر خوب ہاتھ صاف کیا۔
چچاجان کو اپنے سب بھتیجوں میں ممتاز میاں سب سے زیادہ پسند ہیں۔ یوں کہئے انہیں ممتاز پر ناز ہے اور چچاجان کا کہنا ہے کہ ممتاز بہترین محاورے بولتا ہے۔ یہی ممتاز میاں ایک دن اپنے اسکول سے اپنے ابا کے نام ایک خط لے آئے جو ان کے ہیڈماسٹر صاحب نے بھیجا تھا۔ اس خط میں لکھا تھا۔
’’جناب امتیاز احمد صاحب! آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا لڑکا ممتاز احمد، جو آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے، بہ کثرت محاورے بولنے لگا ہے۔ براہ کرم اس پرنظر رکھئے، ورنہ آئندہ چل کر یہ لڑکا ہمارے اسکول کے لئے خطرناک ثابت ہوگا اور ہم اسے رخصت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘‘۔
یہ خط پڑھ کر ابا بےحد گھبرائے۔ انہوں نے ممتاز میاں سے دریافت کیا کہ آخر کیا بات ہوئی جو ہیڈماسٹر صاحب نے ایسا خط لکھ مارا۔
ممتاز میاں بولے۔’’ اباجی! ہمارے ہیڈماسٹر صاحب کو تو بات بات پر ہول آنے لگتا ہے اور وہ بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں‘‘۔
ابا: مجھ سے محاوروں میں باتیں نہ کرو۔ محاورے تم اپنے چچاجان سے بگھارنا۔ مجھے سیدھی سادی اردو میں بتلاؤ کہ ہوا کیا؟
ممتاز: ہوا کچھ بھی نہیں ابا! میں نے اپنے تاریخ کے ماسٹر صاحب سے صرف اتنا کہا کہ ماسٹرصاحب تاریخ میں جھانسی کا ذکر تو بہت ہے، لیکن جھانسے کا کہیں ذکر نہیں۔ بس اتنا سننا تھا کہ ان کے تلوؤں لگی اور سر تک پہنچی۔
ممتاز یہ کہہ ہی رہا تھا کہ اتنے میں چچاجان پہنچ گئے اور فرمایا ’’کیا بات ہوئی بیٹے! تمہارے منہ سے تو اب پھول جھڑنے لگے ہیں‘‘۔
ابا: جی ہاں! جب ہی تو سارے چمن اجڑ گئے ہیں۔ ممتاز آگے بتلاؤ۔
چچاجان: ہاں ممتاز! ہم بھی توسنیں کہ تمہارے تاریخ کے ماسٹر صاحب کے تن بدن میں جو آگ لگی، وہ بجھی کیسے؟
ممتاز: چچاجان! آپ ہمارے تاریخ کے ماسٹر صاحب کو نکو نہ بنائیے۔ وہ اتنا اچھا پڑھاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ جیسے دادی جان کہانیاں سنا رہی ہوں۔ بس ان کی ایک ہی بات ذرا کھلتی ہے۔ غصہ ہمیشہ ان کی ناک پر رہتا ہے۔
ابا: ممتاز، تم ہوش میں ہویا نہیں۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ تم نے ان سے بحث کیوں کی؟
ممتاز: ابا میری تو ان سے صرف دو منٹ بات ہوئی اور اتنی ہی دیر میں ان کے مزاج کا پارا چڑھ گیا۔
ابا: پھر محاورہ، تم یہ محاورے پرمحاورے کیوں بولے چلے جا رہے ہو؟
چچاجان! بھائی صاحب! آپ بھی غضب ڈھاتے ہیں ممتاز بتا تو رہا ہے کہ ماسٹر صاحب اس سے خواہ مخواہ ناراض ہو گئے۔ ممکن ہے وہ پہلے سے ہی خار کھائے بیٹھے ہوں۔
ابّا: لو ایک اور محاورہ اگر یہی حال رہا تو پتا نہیں اس گھر میں مطلب کی بھی کوئی بات ہو سکےگی یا نہیں۔
چچاجان: بھائی صاحب، آج کل تو مدرسوں میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ ایک ماسٹر نے جا کر ہیڈماسٹر کے کان بھر دیئے اور ہیڈماسٹر نے نوٹ لکھ مارا۔
ابا: اچھا اچھا، کل سے ممتاز تم روز ایک گھنٹہ مجھ سے پڑھا کرو، تم اپنے چچا کے پاس بیٹھ بیٹھ کر بہت محاورے سیکھ گئے ہو۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم اسکول میں پٹ نہ جاؤ۔
ممتاز: چچاجان، میں نہ کہتا تھا کہ آپ کسی دن میری درگت بنوا دیں گے۔ چلیے قصہ پاک ہوا۔ کل سے میری بیٹھک اباجان کے کمرے میں ہوگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.