چمپا
شہر لکھنؤ کے محلے نشاط گنج میں میری والدہ ایک ایسے مکان میں رہتی تھیں جس میں شہتوت کا ایک اونچا اور گھنا درخت تھا۔ میری والدہ، جن کو سب باجی اماں کہا کرتے تھے۔ بچوں کو قرآن پڑھایا کرتی تھیں۔
ان ہی میں سے ایک بچے کو کہیں سے گلہری کا چھوٹا سا بچہ مل گیا جو اس نے لاکر میری چھوٹی بہن نفیس کو دے دیا۔ بچہ بہت ہی چھوٹا اور کمزور تھا۔ نفیس نے جوتے کے ایک خالی ڈبے میں روئی بچھاکر اس کے لئے بستر تیار کیا اور روئی کی بتی سے اس کو دودھ پلایا۔
بچہ جلد ہی اس قابل ہو گیا کہ روئی سے دودھ پینے کے بجائے دانتوں سے کتر کر چیزیں کھانے لگا اور والدہ اور بہن سے خوب ہل گیا۔ وہ سارے گھر میں بھاگا بھاگا پھرتا اور جب اسے کھانے کی کوئی چیز دکھائی جاتی تو وہ دوڑ کر آتا اور چیز لے کر کسی کونے میں چھپ جاتا۔ نفیس نے اس کا نام چمپا رکھ دیا۔
دیکھتے دیکھتے چمپا کے رویے میں تبدیلی آنے لگی۔ اب وہ ڈبے میں رہنے کی بجائے شہتوت کے درخت پر رہنے لگی۔ اس نے سب سے اونچی شاخ پر اپنا گھر بنا لیا۔ دوسری تبدیلی اس میں یہ آئی کہ وہ گھر میں آنے والے ہر نئے آدمی کو کاٹنے لگی۔ کبھی کسی بچے کے بھائی یا بہن آجاتے تو چمپا انہیں کاٹنے کو دوڑتی۔
اب تک وہ بچوں پر حملہ کرتی تھی اب وہ بڑوں پر بھی جھپٹنے لگی۔ لوگوں نے ڈر کے مارے آنا چھوڑ دیا۔ کوئی آتا تو پہلے باہر سے آوازیں دیتا، والدہ ہاتھ میں پتلی سی چھڑی لے کر جاتیں اور اسے اپنے ساتھ اندر لاتیں۔ چمپا درخت سے نیچے اتر آتی اور دور بیٹھ کر غصے سے کٹ کٹ کی آوازیں نکالتی۔ اگر شامت کا مارا کوئی آدمی آواز دیئے بغیر اندر آ جاتا تو چمپا اسے کاٹ کر بھاگ جاتی۔
وہ میری بھی دشمن تھی۔ میں جب کبھی وہاں جاتی تو پہلے سے خبر کراتی تب کہیں داخلہ ملتا۔ والدہ نے کئی بار میرے ہاتھ سے چمپا کو کھانے کی چیزیں دلوائیں تاکہ گلہری مجھ سے مانوس ہو جائے مگر چمپا میرے ہاتھ سے کھانا لینے کے بجائے میرے ہاتھ پر پنجہ مار کر بھاگ گئی۔
یہ معاملہ شاید یوں ہی چلتا رہتا لیکن ایک روز یہ ہوا کہ میرے والد صاحب، جو دہلی میں رہتے تھے۔ گھر آ گئے۔ چمپا ان کی بھی دشمن ہوگئی۔ وہ کبھی آنگن میں نکلتے تو چمپا نہ جانے کدھر سے ان پر چھلانگ لگا دیتی۔
باجی اماں سخت پریشان تھیں۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کیا کریں۔ چمپا کسی طرح والد صاحب سے دوستی کرنے پر آمادہ نہ تھی۔ ادھر والد صاحب کا باہر نکلنا بند تھا۔ وہ جب بھی آنگن میں وضو کرتے، گلہری چلا چلاکر آفت مچا دیتی۔ والد صاحب نے کئی بار اس کو سلیپر کھینچ کر ماری لیکن وہ ہر بار بچ کر نکل گئی اور واپس درخت پر چڑھ کر شور مچانے لگی۔
آخر والد صاحب نے اعلان کردیا کہ اس چمپا کی بچی کو گھر سے نکالو ورنہ وہ واپس دلی چلے جائیں گے۔ والدہ بےچاری نے تنگ آکر چمپا کو کہیں دور بجھوانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے جوں ہی آواز دی چمپا خوشی خوشی ان کے پاس آ گئی۔ والدہ نے اس کو پکڑا اور ایک تھیلے میں بند کر دیا۔ پھر انہوں نے تھیلے کا منہ اچھی طرح باندھا اور تھیلا ایک لڑکے کو دے کر اس سے کہا کہ جاکر گلہری کو دور والے باغ میں چھوڑ آئے۔
لڑکے نے جب چمپا کو تھیلے سے باہر نکالا تو پہلے تو وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھتی رہی اور پھر ایک درخت پر چڑھ گئی۔ لڑکا جب واپس آنے لگا تو چمپا نے کچھ دور تک اس کا پیچھا بھی کیا لیکن جب ایک کتے نے اس پر حملہ کرنا چاہا تو چمپا دوڑ کر جھاڑیوں میں چھپ گئی۔
والدہ کئی روز تک اداس رہیں۔ بچے برابر خبریں لاتے رہے کہ وہ جب بھی جاکر چمپا کو آواز دیتے ہیں، وہ آ جاتی ہے۔ باجی اماں اکثر بچوں کے ساتھ اسے کھانے پینے کی چیزیں بھیج دیتیں۔
کچھ عرصے بعد چمپا نے آواز پر آنا چھوڑ دیا۔ وہ درخت پر رہنے والی دوسری گلہریوں سے گھل مل گئی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.