Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چونی کا تماشہ

م م راجندر

چونی کا تماشہ

م م راجندر

MORE BYم م راجندر

     
    اسکول میں یوں تو بہت سے شرارتی لڑکے تھے مگر خالد کی کچھ بات ہی اور تھی۔ ایک اور اس کا ہمجولی تھا امجد۔ مگر امجد سے خالد زیادہ ذہین تھا۔ عام طور پر خالد جو شرارتیں دوسروں کے ساتھ کرتا ان میں مذاق کا پہلو زیادہ ہوتا۔ امجد کی شرارتیں زیادہ تکلیف پہنچانے والی ہوتیں اور وہ ذرا ذرا سی بات پر باکسنگ پر بھی اتر آتا۔ خدا نے اسے بدن اچھا دیا تھا اور قد بھی ماشا اللہ کافی تھا۔ لڑکے خالد کے مقابلے میں امجد سے زیادہ تنگ تھے اور کئی لڑکوں نے تو خالد ککو اس بات پر بھی اکسایا کہ وہ کوئی ایسی ترکیب سوچے کہ میاں امجد چوکڑی بھول جائیں۔

    اسی سکول میں ایک اور لڑکا کریمو تھا جس کی ناک بے حد لمبی تھی۔ ناک ہی کیا وہ تمام کا تمام ہی بہت لمبا تھا۔ خالد اور امجد ویسے تو اس سے ٹکر لیتے ہوئے ڈرتے تھے مگر چوں کہ شرارتی تھے اس لئے نچلے بھی نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ پہلے تو انہوں نے دوسرے لڑکوں میں اس کا نام ’’لمبو‘‘ مشہور کر دیا اور جب کبھی کریمو گزرتا تو یہ دوسرے لڑکوں کو اکساتے کہ ’’لمبوجارہا ہےبے۔ ذرا زور سے کہہ۔ لمبو!‘‘ اب کریمو کی یہ بات تھی وہ بڑا ہاتھ چھٹ تھا۔ اس نےاپنے پیچھے لمبو کی آواز سنی نہیں اور جو اسے نظر آیا اسے مارا نہیں۔ شروع شروع میں تو کچھ لڑکے خالد اور امجد کے کہنے اور رعب میں آگئے اور انہوں نے کریمو کو لمبو کہا مگر جب کریمو کے کرارے ہاتھ پڑے تو سب ٹھیک ہوگئے اور اب کسی کی بھی مجال نہیں تھی کہ کریمو کو لمبو کہے۔ مگر خالد اور امجد ہارے نہیں تھے وہ دونوں ہر وقت ساتھ رہتے اور ان دونوں کی طاقت مل کر کریمو سے زیادہ تھی۔ کریمو نے خوب اس بات کو تو لیا تھا۔ شاید دو خالد ہوتے تو کریمو انہیں ٹھوک دیتا۔ مگر امجد طاقتور بھی تھا اور اس کے گھونسے بھی مشہور تھے۔ اکیلے امجد کو تو وہ بھی نبٹ لیتا مگر خالد اور امجد مل کر اس سے کہیں زیادہ طاقتور تھے۔ یہ دونوں کیا کرتے کہ کریمو گزرتا تو زور سے آواز دیئے ’’لمبو‘‘۔۔۔ اور پھر مونہہ پھیر کر کھی کھی کرکے ہنستے رہتے۔ کریمو دانت پیس کر رہ جاتا۔ ایک روز امجد اکیلا چوتھی کی کلاس کے آگے کھڑا تھا۔ وہ پیشاب کرنے کے بہانے نکلا ہوا تھا جس کا مطلب بیس منٹ یا آدھے گھنٹے کی چھٹی ہوتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ سامنے سے کریمو آرہا ہے۔ اسے ایک دم شرارت سوجھی اور اس نے غسل خانے کی دیوار کی آڑ میں مونہہ چھپا کر زور سے کہا۔ ’’او عربی اونٹ!‘‘ اور یہ کہتے ہی وہ فوراً دیوار کے ساتھ ساتھ ہی چھپتا چھپاتا دوڑ کر اپنی کلاس میں گھس گیا۔ اس آواز کا آنا تھا کہ کریمو سٹپٹا گیا۔ وہ ڈرل ماسٹر کے رول کھا کر آرہا تھا اور اس کے تن بدن میں پہلے ہی آگ لگی ہوئی تھی۔ ’’اونٹ‘‘ کے لفظ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور وہ غسل خانے کی طرف بھاگا۔ بدقسمتی کہ وہاں اس وقت میاں خالد اپنے سیاہی کے ہاتھ دھو رہے تھے۔ کریمو کو آگ بگولہ دیکھ کر پہلے تو گھبرائے مگر چوں کہ آج انہوں نے ابھی تک ’’لمبو‘‘ نہیں کہا تھا اس لئے پھر بے فکری سے ہاتھ دھونے لگے۔ مگر ایک زور کا دھپ جو پڑا تو سٹی گم ہوگئی۔ لاکھ دلیل بازی کی، ہیڈ ماسٹر سے شکایت کی دھمکی دی مگر بے سود۔ کریمو نے کافی مرمت کر دی اور ایک دو لڑکے جو ہاتھ دھونے گھسے وہ کریمو کو خالد کی مرمت کرتے دیکھ کر چپکے سے بغیر ہاتھ دھوئے ہی واپس لوٹ گئے!

    خالد کو سارے قصے کا پتہ لگ گیا۔ اسے امجد پر بڑا غصہ آیا کیوں کہ یہ دونوں کا معاہدہ تھا کہ اگر وہ کریمو کو لمبو کہیں گے تو تبھی کہیں گے جب وہ دونوں اکٹھے ہوں گے اور پھر لمبو کی بجائے ’’عربی اونٹ‘‘ کہہ کر امجد نے اسے زیادہ مار پٹوائی تھی اس کے دل میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ اسے مار امجد کی وجہ سے پڑی ہے۔ اس نے امجد سے دوستی تو نہیں چھوڑی مگر دل میں بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ ادھر کریمو خوش تھا کیوں کہ خالد کے دو چار لگ جانے سے یہ فائدہ ہوگیا تھا کہ اب اگر وہ دونوں اکٹھے کبھی ہوتے تب بھی اسے ’’لمبو‘‘ نہ کہتے۔

    اگلے اتوار کو امجد خالد کے گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ خالد ایک پوسٹ کارڈ لکھ رہا ہے۔ امجد کے پہنچتے ہی اس نے کارڈ چھپا لیا۔ امجد بولا۔

    ’’کسے لکھ رہا ہے‘‘

    ’’بتاؤں گا مگر ایک شرط پر‘‘

    ’’وہ کیا۔‘‘

    ’’بس کسی کو پتہ نہ لگے۔‘‘

    ’’میں نے کبھی تیری بات کسی کو بتائی ہے۔‘‘

    ’’وعدہ ہے؟‘‘

    ’’وعدہ‘‘

    ’’تو دیکھو۔‘‘

    امجد کچھ پھٹی پھٹی سی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ پتہ کچھ اس طرح لکھا ہوا تھا۔

    مسٹر

    گلی حجام والی

    اقبال گنج، دہلی

    اور کارڈ کے دوسری طرف یہ مضمون تھا۔

    اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی

    ازطرف کاتب ’’کھلونا‘‘

    امجد نے مضمون پڑھنے کے بعد پھر پتہ پڑھا۔ پتہ کریمو کا ہی تھا۔ یہ ناک اتنی مشہور تھی کہ مسٹر کے آگے کریمو کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ گویا یہ کارڈ کریمو کو بھلیجا جارہا تھا اور بغیر نام کے امجد! امجد کی ہنسی چھوٹ گئی اور وہ ناک کو دیکھتا رہا اور ہنستا رہا۔ وہ اتنا ہنسا کہ پیٹ میں بل پڑگئے۔ جب ذرا ہوش آیا تو بولا۔

    ’’اماں یہ بتاؤ تم نے اس غریب کاتب ’’کھلونا‘‘ کو کیوں پھنسا دیا۔‘‘

    ’’یار ہم تو بدلہ لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہماری بلا سے اب میاں لمبو کے ہاتھ کون پٹتا ہے۔ پہلے تو میرا ارادہ میاں الیاس کا نام ہی لکھنے کا تھا مگر پھر سوچا کہ وہ بڑے کائیاں ہیں کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں اس لئے کاتب صاحب کو رگڑ دیا ہے۔ قسم خدا کی ہمیں وہ مار ابھی یاد ہے۔‘‘

    ’’مان گئے یار تمہیں مگر یہ بتاؤ یہ کارڈ ڈاک میں ڈال دوگے تو لمبو کو مل جائے گا۔‘‘

    ’’خیال تو یہی ہے۔ اس گلی میں اتنی لمبی ناک والا اور کون ہے۔ ڈاکیہ فوراً پہچان جائےگا اور کارڈ کریمو کو ملنا چاہئے۔‘‘

    ’’بات تو تیری ٹھیک ہے۔‘‘

    ’’یا میں بتاؤں؟‘‘

    ’’بتا‘‘

    ’’اچھا رہنے دے۔‘‘

    ’’دیکھ خالد تو میرا جگری دوست ہے۔ مجھ سے کچھ نہ چھپا۔‘‘

    ’’تو انکار کردےگا۔‘‘

    ’’تو بتا تو۔ تیرے لئے جان تک حاضر ہے۔‘‘

    ’’اچھا تو سن۔ دیکھ تجھ سے بڑھ کر میرا کوئی دوست نہیں ہے۔ تیری وجہ سے میں کریمو سے پٹ تک چکا ہوں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘

    ’’میری یہ خواہش ہے کہ یہ کارڈ کریمو کو ضرور مل جائے۔ بڑا مزہ رہےگا مگر مجھے شک ہے کہ کہیں سالا ڈاکیہ پڑھ کر پھاڑ نہ دے۔‘‘

    ’’تو پھر کیا کریں۔‘‘

    ’’ہم دونوں میں سے ہی ایک ڈاکیہ بن کر یہ چھٹی اس کے گھر پہنچا کر آئے۔‘‘

    ’’یہ تو ہوسکتا ہے مگر ہمیں ڈاکئے کا کوٹ، اس کا بیگ اور اس کی پگڑی کہاں سے ملےگی؟‘‘

    ’’یہ انتظام میں سب کر دوں گا۔ والد صاحب کے چپڑاسی کی خاکی پگڑی، کوٹ اور پاجامہ میں لے لوں گا۔ بالکل ڈاکیئے کی طرح ہے۔ ہمارے گھر میں ایک پرانا چمڑے کا بیگ بھی رکھا ہے۔ بس ایک پنسل اور مونچھوں کی ضرورت ہوگی۔‘‘ ’’ان کا کیا ہوگا‘‘

    ’’پنسل کان میں لگے گی اور مونچھیں اپنی شکل چھپانے کے لئے ضروری ہیں۔ دوسرے کریمو کی گلی میں جوڈا کئے جاتے ہیں ان دونوں کی بڑی بڑی مونچھیں ہیں۔‘‘

    ’’تو مونچھیں تو یار ہیں لا دوں گا۔‘‘

    ’’کہاں سے‘‘

    ’’رام لال میرا دوست ہے۔ ان لوگوں نے رام لیلا کی تھی تو بہت سی داڑھی مونچھیں لائے تھے۔ مجھے پتہ ہے جہاں بکتی ہیں۔ ایک مونچھ آنے روز کرائے پر مل جاتی ہے۔ گوند سے چپک جاتی ہے۔‘‘

    ’’تو دوست ایک مونچھ اگلے سنیجر کو لے آنا۔ میں چونی سکول میں دیدوں گا۔ بات یہ کہ میرا تو قد چھوٹا ہے ورنہ میں خود بن جاتا۔ تم یہ تکلیف کرو۔‘‘

    ’’ارے یار تکلیف کیوں کرتے ہو۔ اس میں کون سی بات ہے۔ میں تیار ہوں اور سنو میں اس روز کریمو کو تمہارا کارڈ دے کر کئی اور جگہ بھی پرانے خطوں کی ڈاک بانٹ آؤں گا اور سب کو الو بناؤں گا۔‘‘

    ’’بھئی مان گئے۔ چلو اب باہر چلتے ہیں۔ میرے پاس پیسے ہیں گرم گرم پکوڑے کھائیں گے۔‘‘

    اتوار کو امجد صبح ہی مونچھیں اپنی جیب میں چھپا کر خالد کے گھر پہنچ گئی۔ خالد نے اس کے پہنچتے ہی کمرہ بند کر دیا۔ تمام چیزیں تیار تھیں۔ کوٹ، پاجامہ، پگڑی چمڑے کا بیگ اور کئی پرانی چھٹیاں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ خالد نے امجد کو جلدی سے اپنے کپڑے اتارنے اور ڈاکئے کی وردی پہننے کو کہا کیوں کہ صبح دس بجے کی پہلی ’’ڈاک‘‘ بانٹنے کا پروگرام تھا۔ امجد نے پگڑی خوب صفائی سے باندھی مگر خالد نے ذرا ڈھیلی کر دی اور کان میں پنسل لگائی تو میاں امجد سو فیصدی ڈاکئے نظر آنے لگے! اب صرف مونچھوں کی کسر تھی۔ خالد نے بہت سارا گوند لگاکر امجد کے ہونٹوں پر چپکا دیں۔ امجد نے اپنے ہاتھوں سے بھی جمائیں اور آئینے دیکھ کر کرنوں پر سے مروڑا اور آنکھ ماری۔ پھر بیگ لٹکایا اور بانٹے جانے والے ’’خطوط‘‘ کو ہاتھ میں رکھا جن میں سب سے پہلا خط کریمو کا تھا۔ خالد میاں نے پیٹھ پر تھپکی دے کر رخصت کیا۔

    اب وہ امجد اور ڈاکیہ بن کر باہر نکلا تو بہت لوگوں نے اس کی طرف گھورا۔ ایک آدھ جگہ اتنا بھی جھپٹا۔ ایک گلی میں ایک مولوی صاحب نے یہ بھی پوچھا ’’میاں کوئی تار یا ایکسپریس لیٹر لائے ہو؟‘‘

    مگر امجد کہہ کر بڑھ گیا ’’تار والا ڈاکیہ اور ہے۔‘‘ کریمو کی گلی میں گھسا تو اس کے گھر کے آگے ایک موٹے سے کتے کو بیٹھے ہوئے پایا۔ گھر سے جو بیر ملے تھے ان میں سے دو باقی تھے۔ ایک مونہہ میں ڈالا اور دوسرا کتے کے آگے پھینکا۔ اس نے فوراً دم کی ہری جھنڈی ہلا دی اور میاں امجد حوصلے کے ساتھ آگے بڑھے اور کریمو کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر بہت موٹی آواز میں بولے۔

    ’’ڈاکیہ۔۔۔ ڈاک لے لو۔۔۔ بھئی اس گھر میں کوئی کریمو ہے۔ نہیں نہیں میاں کریمو کی چھٹی ہے۔ کریمو میاں۔‘‘

    دروازہ کریمو نے ہی کھولا۔ آج اس کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ ابھی ابھی ابا جان سے مار بھی کھائی تھی۔ کریمو کے ساتھ پیچھے اس کے ابا بھی آ کھڑے ہوئے اور بولے۔

    ’’میاں ڈاکئے آج اتوار کو کیسی ڈاک بانٹ رہے ہو۔ کیا کوئ ایکسپریس لیٹر ہے۔‘‘
    اتوار کا نام سنتے ہی میاں امجد کے ہوش اڑ گئے۔ سٹپٹا کر قدم پیچھے ہٹائے مگر کارڈ کریمو کے ہاتھ میں پکڑا چکے تھے اور کریمو اپنی لمبی ناک دیکھ چکا تھا۔ وہ فوراً سارا معاملہ بھانپ گیا۔ امجد نے فوراً فیصلہ کیا کہ سوائے دفع ہونے کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ وہاں سے بھاگا ہی تھا کہ کریمو بھی پیچھے لپکا۔ امجد بہت تیز بھاگا مگر کریمو کی لمبی ٹانگوں نے دوسری گلی کے موڑ پر ہی پکڑ لیا۔ امجد نے کوئی اور صورت نہ دیکھ کر کریمو کے ایک ڈگ جمایا مگر کریمو نے ایک منٹ میں ہی اسے بس میں کر کے دو چار چپت ایسی جمائیں کہ ہوش ٹھکانے آ گئے۔ ’’ڈاک‘‘ ساری ادھر ادھر بکھر گئی۔ ادھر امجد کی مرمت ہو رہی تھی اور ادھر بالکل سامنے میاں خالد اپنے خالو کے گھر سے یہ سب تماشہ دیکھ رہے تھے اور ہنس ہنس کر دہرے ہوئے جا رہے تھے۔ بس نقصان یہ ہوا کہ کریمو نے مونچھوں کو امجد کے چہرے پر سے اتار کر ٹکڑے کر کے پھینک دیا۔ مگر یہ نقصان بھی میاں خالد کا نہیں تھا کیوں کہ مونچھیں امجد کرائے پر لایا تھا اور اب امجد کا خالد سے بہت دنوں تک بولنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔‘‘ گویا سارا تماشہ صرف چونی میں پڑا۔ اتنا مزہ تو ناز ’’ٹاکی کے‘‘ کے منڈدے کے چار آنے کے ٹکٹ میں بھی کبھی نہیں آیا تھا۔ جہاں تک ’’ڈاکئے‘‘ کے لباس کا تعلق تھا تو میاں امجد کے اپنے کپڑے خالد کے گھر پر تھے جنہیں وہ ڈاکئے کا لباس واپس کر کے ہی لے سکتے تھے! 

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے