چھوٹا کوفتہ
خرم ٹرے میں چائے کا کپ لیے کونے والی میز کی طرف بڑھا تو اس کی نظر ایک چھوٹے سے قد والے لڑکے پر پڑی، وہ لڑکا ہوٹل کے مالک خادم علی کے پاس کھڑا تھا، چائے کا کپ میز پر رکھ کر جیسے ہی وہ مڑا، اس کے سامنے مجاہد آ گیا۔ وہ خالی برتن اٹھائے سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ خرم نے ٹرے کو لہراتے ہوئے مجاہد کو مخاطب کیا۔
’’یہ چھوٹا کوفتہ شاید شاید ملازمت کے لیے آیا ہے۔‘‘
’’چھوٹا کوفتہ، کون چھوٹا کوفتہ؟‘‘ مجاہد کچھ سمجھ نہ پایا تھا۔
’’چھوٹا کوفتہ، کون چھوٹا کوفتہ کھڑا ہوا ہے۔‘‘
خرم کے اشارہ کرنے پر مجاہد نے کیبن پر نگاہ ڈالی تو وہ بےاختیار بولا: ’’ارے، یہ تو واقعی چھوٹا کوفتہ ہے، چھوٹا سا قد اور کوفتے کی طرح گول سا منہ، واہ تم نے بہت خوبصورت نام رکھا ہے، تم تو نام رکھنے میں ماہر ہو، کوئی آلو بیگن ہے تو کوئی ٹینڈا ہے، مسٹر پکوڑا بھی تمہارا ہی رکھا نام رکھا ہے۔‘‘
اگر خادم علی انہیں نہ گھورتا تو مجاہد مزید خرم کی تعریفیں کرتا۔
’’تم دونوں ادھر آؤ۔‘‘ خادم علی نے انہیں بلایا۔
چند لمحوں بعد وہ کیبن میں موجود تھے۔
’’یہ کمال ہے، اب یہ تم لوگوں کے ساتھ کام کرےگا، کمال ان کے ساتھ جاؤ، یہ تمہیں کام سمجھا دیں گے۔‘‘
’’کمال آ جاؤ ہمارے ساتھ۔‘‘ مجاہد بولا۔
’’چھوٹا کوفتہ۔‘‘ خرم نے آہستگی سے کہا۔
شام کو جب وہ کوارٹر کی طرف جارہے تھے تو کمال کو اس وقت اپنے نئے نام کا علم ہوا تھا۔ اسے بہت عجیب سا لگا تھا کہ خرم نے اس کا نام چھوٹا کوفتہ رکھا ہے۔ اس نے ناراضی کا اظہار کیا تو مجاہد نے اسے بتایا تھا کہ خرم، خادم ہوٹل میں آنے والے ہر نئے ملازم کا اسی طرح نہ کوئی نام ضرور رکھتا ہے۔
’’کیا میری شکل کوفتے جیسی ہے؟‘‘ کمال نے خرم کو گھورا۔
’’ہاں، گول مٹول، بالکل کوفتے جیسے شکل، یقین نہیں آتا تو آئینے میں اپنی صورت دیکھ لو۔‘‘ خرم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
کوارٹر میں پہنچ کر کمال نے دیوار کے ساتھ لٹکے ہوئے ایک گول آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو اپنا گول چہرہ اور گول روشن آنکھیں دیکھ کر ابا کی ایک بات یاد آ گئی۔
’’یہ بالکل میرے جیسا ہے، ہو بہو میری صورت۔‘‘
ابا کی صورت اس نے آخری بار تب دیکھی تھی جب وہ ماہ قبل وہ دفتر جانے کے لئے گھر سے نکلے تھے۔ وہی معمول کی نصیحتیں تھیں، اسکول سے سیدھا گھر آنا، وہاں شرارتیں مت کرنا، دل لگا کر پڑھنا۔ وہ ہر بات پر اپنا سرہاں میں ہلاتا رہا۔ وہ اسکول ہی میں تھا کہ ماموں قمر اسے لینے آ گئے تھے۔ ماموں اسے کچھ بتانے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ گھر آیا تو ابا جان خون میں لت پت بےجان چارپائی پر پڑے تھے۔ ایک پتنگ کے ساتھ لگی دھاتی تاران کی گردن پر پھرنے سے وہ بری طرح زخمی ہوگئے اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔
اس حادثے کے بعد کمال کا تعلیمی سفر رک گیا۔ وہ اسکول سے خادم ہوٹل آ گیا۔ کتابوں کی بجائے گندے برتن اور میزوں کو صاف کرنے کا کپڑا اس کے ہاتھوں میں آ گیا تھا۔ اسکول کی یادیں ہر لمحہ اس کے ساتھ ہوتی تھیں۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے گھر چلا جائے اور گلے میں بیگ ڈالے اسکول میں واپس چلا جائے۔ وہ بیٹھے بیٹھے یادوں میں گم ہو جاتا۔ اس وقت خرم اکثر یہ جملہ کہتا:
’’چھوٹے کوفتے یادوں کے شوربے میں ڈبکی ضرور لگاؤ مگر اس میں گم مت ہو جاؤ، یادوں کو چھوڑو اور گندے برتنوں کی طرف بڑھو، وہ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
یہ جملہ سن کر کمال ’’ہوں ہاں‘‘ کرتے ہوئے گندے برتنوں کی طرف بڑھ جاتا تھا۔ ہوٹل کا مالک اگرچہ اس کے ماموں کا جاننے والا تھا مگر غلطی پر معافی کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوہوتا تھا۔ گلاس ٹوٹ جائے یا چائے کا کپ، وہ ملازمین کو گھورتا اور کاپی پر کچھ لکھتا جاتا۔ مہینے کے آخر میں جب تنخواہ دی جاتی تو اس میں برتن توڑنے کے پیس کاٹ لیے جاتے۔ جب کوئی ملازم احتجاج کرتا تو خادم علی کہتا کہ اگر کام نہیں کرنا چاہتے تو یہاں سے چلے جاؤ۔ کمال یادوں میں کھو ضرور جاتا تھا مگر اس سے ابھی تک کوئی برتن نہیں ٹوٹا تھا۔
جب سے خرم نے اسے ’’چھوٹا کوفتہ‘‘ کا نام دیا تھا اس کا اصل نام پس منظر میں چلا گیا تھا۔ اب ہر کوئی اسے چھوٹا کوفتہ ہی کہہ کر مخاطب کرتا پہلے پہل تو اسے غصہ آتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس نئے نام کو سننے کا عادی ہو گیا تھا۔
ایک دن وہ میز صاف کر رہا تھا کہ اس کے اسکول کے استاد سر سلیم اپنے دوستوں کے ساتھ ہوٹل میں داخل ہوئے۔
سر سلیم نے اسے دیکھ کر کہا:
’’کمال تم یہاں کیسے؟‘‘۔
’’میں اس ہوٹل میں کام کرتا ہوں۔‘‘
’’میرا ساتھ والی گلی میں واقع ہائی اسکول میں تبادلہ ہوا ہے، مارکیٹ کے پاس میں نے پلازہ میں کرائے کا فلیٹ بھی لے لیا ہے۔‘‘ خادم علی نے جب دیکھا کہ کمال باتوں میں وقت ضائع کر رہا ہے تو اس نے غصیلے انداز میں پکارا:
’’چھوٹے کوفتے میز سے برتن اٹھاؤ۔‘‘
’’چھوٹے کوفتے۔‘‘ سر سلیم نے دہرایا۔
’’سر! یہ میرا نام ہے، میں اب کمال نہیں چھوٹا کوفتہ ہوں، اپنے گھر والوں، سکول اور دوستوں سے دور ایک چھوٹا کوفتہ‘‘۔ یہ کہتے ہوئے کمال کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ سر سلیم اس سے مزید باتیں کرنا چاہتے تھے، کمال کو خادم علی کے غصے کا علم تھا۔ وہ تیزی سے میز سے برتن اٹھانے لگا۔ سر سلیم چائے پی کر ہوٹل سے نکلنے لگے تو کمال کی طرف دیکھ کر بولے:
’’میں اب آتا رہوں گا۔ میں اب تمہیں چھوٹا کوفتہ سے کمال بناؤں گا۔ ہاں میں ایسا کروں گا۔‘‘
کمال نے جب اسکول خیرباد کہا تھا، اس وقت وہ ساتویں جماعت میں تھا۔ وہ اردو پڑھ اور لکھ سکتا تھا۔ ریاضی اور انگلش میں اسے زیادہ مہارت نہ تھی ان مضامین میں وہ اتنا کمزور بھی نہیں تھا کہ اسے نالائق کہا جائے۔ اس دن اس کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے جب سر سلیم کتابوں کا ایک پیکٹ اس کے لئے لائے تھے۔ خادم علی نے سر سلیم کے جانے کے بعد اسے اپنے پاس بلایا۔ کتابیں کمال کے ہاتھ میں تھیں۔
’’چھوٹے کوفتے یہ سب کیا ہے؟‘‘ خادم علی کا لہجہ بتا رہا تھا کہ اسے ان کتابوں کی موجودگی اچھی نہیں لگی۔
’’میں ان کتابوں کو کوارٹر میں لے جاؤں گا۔ میں انہیں یہاں نہیں پڑھوں گا۔ میں اپنا کام پورا کروں گا۔‘‘ کمال کی بات سن کر خادم علی نے بیزار انداز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے جاؤ اپنا کام کرو۔‘‘
رات کوارٹر میں جب اس نے کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو اسے یوں محسوس ہوا کہ گزرا ہوا زمانہ لوٹ آیا ہو۔ خرم، مجاہد اور عبداللہ لیٹتے ہی خراٹے بھرنے لگے تھے۔ اگرچہ کمال دن بھر کا تھکا ہوا تھا مگر کتابوں سے اتنے دنوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی کہ نیند اس ملاقات میں حائل ہونے کے لئے ہرگز تیار نہ تھی۔ اب تو کمال نے یہ معمول بنا لیا کہ ہوٹل سے آنے کے بعد کتابیں لے کر بیٹھ جاتا جو سمجھ نہ آتا ایک کاغذ پر لکھ لیتا جب سر سلیم کھانا کھانے یا چائے پینے کے لئے آتے تو وہ کاغذ ان کے سامنے رکھ دیتا۔ خادم علی کو ایسا کرنا پسند نہیں تھا وہ تو اپنے ملازمین کو مشین سمجھتا تھا۔ جذبات سے عادی مشین، کبھی خراب نہ ہونے والی مشین، ہر وقت کام کرنے والی مشین۔ سر سلیم زمانہ شناس استاد تھے۔ وہ خادم علی کے لب و لہجے سے سب بات جان چکے تھے۔ وہ ایک دن ہوٹل میں داخل ہوئے تو سیدھے کیبن میں چلے گئے انہوں نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے کہا۔
’’مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے؟‘‘
’’کیسی مدد؟‘‘ خادم علی نے اسے بغور دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’میں چھوٹا کوفتہ کو چھوٹا کوفتہ سے کمال بنانا چاہتا ہوں۔ روزانہ صرف ایک گھنٹہ دے دیجئے، میں اس ایک گھنٹے میں چوٹا کوفتہ کو کمال میں بدل دوں گا۔ خدارا میری مدد کریں۔‘‘ سرسلیم کے نرم لہجہ نے سخت دل خادم علی کو نرم کر دیا تھا۔ ایک گھنٹے کی چھٹی ملنے پر کمال بہت خوش تھا۔ جب کمال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو اس نے سرسلیم اور ان کے دوستوں کی مزیدار کوفتوں سے تواضع کی تھی۔
’’یہ۔۔۔ یہ کوفتے میں نے بنائے ہیں اب میں برتن دھونے کی بجائے باورچی توصیف کے معاون کی حیثیت سے کام کرتا ہوں، میں ان سے پکوائی سیکھ رہا ہوں۔’’ کمال نے ترقی کے سفر کی طرف پہلا قدم رکھ دیا تھا۔ سرسلیم کی رہنمائی اور اپنی لگن کے ساتھ یہ سفر جاری رہا۔ جب دل میں کچھ کر گزرنے کا ارادہ ہو تو سفر آسان ہو جاتا ہے۔
نانا جان کے انتقال کے بعد امّی جان کے حصے میں جو تھوڑی سی زرعی زمین آئی تھی، کمال نے اسے بیچ کر ایک چھوٹا سا ہوٹل بنا لیا۔ اب وہ اس کاروبار کو اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔ عملی کام کے ساتھ ساتھ وہ اس حوالے سے بہت سی کتب کا مطالعہ بھی کر چکا تھا۔ ہوٹل کے نام کو اس نے سب سے خفیہ رکھا ہوا تھا۔ اس کی خواہش پر ہوٹل کا افتتاح کرنے کے لئے سرسلیم اور خادم علی مقررہ دن شاداب روڈ پر ایک دکان میں موجود تھے۔ جب ہوٹل کے نام کی تختی سے نقاب ہٹایا گیا تو اس پر جلی حروف میں لکھا تھا ’’چھوٹا کوفتہ ہوٹل، مزیدار کوفتے تناول کرنے کے لئے ہمارے ہاں تشریف لائیے‘‘ خرم جس نے کمال کو یہ نام دیا تھا وہ بھی اُس وقت وہاں موجود تھا وہ کچھ شرمندہ سا دکھائی دے رہا تھا۔ دونوں ہی میں منفرد نم کے باعث چھوٹا کوفتہ ہوٹل اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ پانچ سال بعد شہر میں چھوٹا کوفتہ ہوٹل کی تین مزید شاخیں کھل چکی تھیں۔ اس کی کامیابی کو دیکھ کر اور بھی بہت سے لوگ ملتے جلتے ناموں ’’بڑا کوفتہ ہوٹل، مزیدار کوفتہ ہوٹل اور کوفتے ہی کوفتے‘‘ ہوٹل کے نام سے میدان میں کودے مگر اصل، اصل اور نقل، نقل ہی ہوتی ہے۔ کسی کوفتے والے کو چھوٹا کوفتہ ہوٹل کی طرح کامیابی نہ ملی۔
جب اس نے گاڑی لی تو مٹھائی لے کر سرسلیم کے پاس گیا۔ ان کا شکریہ ادا کیا۔ کمال کو اس کمال تک پہنچانے میں سرسلیم نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ وہ ایک دن ایک خوبصورت کیبن میں بیٹھا تھا کہ ہوٹل میں کچھ ملازم لڑتے دکھائی دیئے کچھ دیر بعد وہ کیبن میں موجود تھے۔ کمال نے انہیں گھورا۔
’’کیوں لڑرہے ہو؟‘‘۔
’’اس نے میرا نام چھوٹا پراٹھا رکھا ہے۔ یہ ہروقت مجھے بلال کی بجائے چھوٹا پراٹھا کہہ کر پکارتا ہے۔‘‘
’’چھوٹا پراٹھا‘‘ کمال نے دہرایا۔
’’جی۔۔۔ جی۔۔۔‘‘ مجھے چھوٹا پراٹھا کہتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے بلال رو دیا۔
کمال نے آگے بڑھ کر اس کے آنسو پونچھے۔ اس کے بال سہلائے، محبت سے اس کا ہاتھ پکڑا پھر چھوٹا کوفتہ سے چھوٹا کوفتہ ہوٹل تک کے سفر کی ایک ایک بات اُسے بتائی۔ چھوٹا پراٹھا ساری داستان سن کر بولا۔
’’آپ کو تو سرسلیم مل گئے تھے اور۔۔۔‘‘
’’اور تمہیں سرکمال مل گئے ہیں۔ میں تمہاری رہنمائی کروں گا۔ تمہاری مدد کروں گا۔‘‘ کمال نے چھوٹا پراٹھا کی بات بھی پوری نہ ہونے دی تھی جیسی چمک سر سلیم کے مل جانے پر چھوٹا کوفتہ کی آنکھوں میں تھی۔ جب سچا اور مخلص رہنما مل جائے تو بُرائی سے بھی اچھائی کا پہلو نکالا جا سکتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.